Noon Meem Rashid
- 1 August 1910 -9 October 1975
- Alipur Chatha, Punjab, British India
Introduction
ان کی نظم ‘زندگی سی ڈرتے ہو’ کو 2010 کی بالی ووڈ فلم ، پیپل لائیو میں شامل کیا گیا تھا.
Ghazal
حسرت انتظار یار نہ پوچھ
حسرت انتظار یار نہ پوچھ ہائے وہ شدت انتظار نہ پوچھ رنگ گلشن دم بہار نہ پوچھ وحشت قلب بے قرار نہ پوچھ صدمۂ عندلیب
جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجے
جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجے یہ زندگی ہے تو پھر زندگی کو کیا کیجے رکا جو کام تو دیوانگی ہی
تو آشنائے جذبۂ الفت نہیں رہا
تو آشنائے جذبۂ الفت نہیں رہا دل میں ترے وہ ذوق محبت نہیں رہا پھر نغمہ ہائے قم تو فضا میں ہیں گونجتے تو ہی
ترے کرم سے خدائی میں یوں تو کیا نہ ملا
ترے کرم سے خدائی میں یوں تو کیا نہ ملا مگر جو تو نہ ملا زیست کا مزا نہ ملا حیات شوق کی یہ گرمیاں
Nazm
زندگی سے ڈرتے ہو
زندگی سے ڈرتے ہو؟ زندگی تو تم بھی ہو زندگی تو ہم بھی ہیں زندگی سے ڈرتے ہو؟ آدمی سے ڈرتے ہو؟ آدمی تو تم
رقص
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں ڈر سے لرزاں ہوں کہیں ایسا نہ ہو رقص گہ
حسن کوزہ گر ۱
جہاں زاد نیچے گلی میں ترے در کے آگے یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطار یوسف کی
حسن کوزہ گر۲
اے جہاں زاد نشاط اس شب بے راہ روی کی میں کہاں تک بھولوں زور مے تھا کہ مرے ہاتھ کی لرزش تھی کہ اس
اندھا کباڑی
شہر کے گوشوں میں ہیں بکھرے ہوئے پا شکستہ سر بریدہ خواب جن سے شہر والے بے خبر گھومتا ہوں شہر کے گوشوں میں روز
۳ حسن کوزہ گر
جہاں زاد وہ حلب کی کارواں سرا کا حوض، رات وہ سکوت جس میں ایک دوسرے سے ہم کنار تیرتے رہے محیط جس طرح ہو
میں اسے واقف الفت نہ کروں
سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ میں ابھی اس کو شناسائے محبت نہ کروں روح کو اس کی اسیر غم الفت نہ
حسن کوزہ گر ۴
جہاں زاد کیسے ہزاروں برس بعد اک شہر مدفون کی ہر گلی میں مرے جام و مینا و گل داں کے ریزے ملے ہیں کہ
میرے بھی ہیں کچھ خواب
اے عشق ازل گیر و ابد تاب میرے بھی ہیں کچھ خواب میرے بھی ہیں کچھ خواب اس دور سے اس دور کے سوکھے ہوئے
سبا ویراں
سلیماں سر بہ زانو اور سبا ویراں سبا ویراں، سبا آسیب کا مسکن سبا آلام کا انبار بے پایاں گیاہ و سبزہ و گل سے
گماں کا ممکن۔ جو تو ہے میں ہوں
کریم سورج جو ٹھنڈے پتھر کو اپنی گولائی دے رہا ہے جو اپنی ہمواری دے رہا ہے وہ ٹھنڈا پتھر جو میرے مانند بھورے سبزوں
بے کراں رات کے سناٹے میں
تیرے بستر پہ مری جان کبھی بے کراں رات کے سناٹے میں جذبۂ شوق سے ہو جاتے ہیں اعضا مدہوش اور لذت کی گراں باری
Sher
پلا ساقیا مئے جاں پلا کہ میں لاؤں پھر خبر جنوں
پلا ساقیا مئے جاں پلا کہ میں لاؤں پھر خبر جنوں یہ خرد کی رات چھٹے کہیں نظر آئے پھر سحر جنوں ن م راشد
غم عاشقی میں گرہ کشا نہ خرد ہوئی نہ جنوں ہوا
غم عاشقی میں گرہ کشا نہ خرد ہوئی نہ جنوں ہوا وہ ستم سہے کہ ہمیں رہا نہ پئے خرد نہ سر جنوں ن م
وہی منزلیں وہی دشت و در ترے دل زدوں کے ہیں راہ بر
وہی منزلیں وہی دشت و در ترے دل زدوں کے ہیں راہ بر وہی آرزو وہی جستجو وہی راہ پر خطر جنوں ن م راشد
حسرت انتظار یار نہ پوچھ
حسرت انتظار یار نہ پوچھ ہائے وہ شدت انتظار نہ پوچھ ن م راشد
میں ہوں نا آشنائے وصل ہنوز
میں ہوں نا آشنائے وصل ہنوز مجھ سے کیف وصال یار نہ پوچھ ن م راشد
جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجے
جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجے یہ زندگی ہے تو پھر زندگی کو کیا کیجے ن م راشد
وصال دوست سے بھی کم نہ ہو سکی راشدؔ
وصال دوست سے بھی کم نہ ہو سکی راشدؔ ازل سے پائی ہوئی تشنگی کو کیا کیجے ن م راشد
ترے کرم سے خدائی میں یوں تو کیا نہ ملا
ترے کرم سے خدائی میں یوں تو کیا نہ ملا مگر جو تو نہ ملا زیست کا مزا نہ ملا ن م راشد
تو آشنائے جذبۂ الفت نہیں رہا
تو آشنائے جذبۂ الفت نہیں رہا دل میں ترے وہ ذوق محبت نہیں رہا ن م راشد
کیا فائدہ ہے دعوئے عشق حسین سے
کیا فائدہ ہے دعوئے عشق حسین سے سر میں اگر وہ شوق شہادت نہیں رہا ن م راشد