![Aftab Iqbal Shamim 1 jpg 20230721 190333 0000](https://iztirab.com/wp-content/uploads/2023/07/jpg_20230721_190333_0000-1024x1024.jpg)
Aftab Iqbal Shamim
- 16 February 1933
- Jhelum, Pakistan
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
نسلیں جو اندھیرے کے محاذوں پہ لڑی ہیں
نسلیں جو اندھیرے کے محاذوں پہ لڑی ہیں اب دن کے کٹہرے میں خطاوار کھڑی ہیں بے نام سی آواز شگفت آئی کہیں سے کچھ
ہر کسی کا ہر کسی سے رابطہ ٹوٹا ہوا
ہر کسی کا ہر کسی سے رابطہ ٹوٹا ہوا آنکھ سے منظر خبر سے واقعہ ٹوٹا ہوا کیوں یہ ہم صورت رواں ہیں مختلف اطراف
نظر کے سامنے رہنا نظر نہیں آنا
نظر کے سامنے رہنا نظر نہیں آنا ترے سوا یہ کسی کو ہنر نہیں آنا یہ انتظار مگر اختیار میں بھی نہیں پتہ تو ہے
جب چاہا خود کو شاد یا ناشاد کر لیا
جب چاہا خود کو شاد یا ناشاد کر لیا اپنے لئے فریب سا ایجاد کر لیا کیا سوچنا کہ شوق کا انجام کیا ہوا جب
عشق میں یہ مجبوری تو ہو جاتی ہے
عشق میں یہ مجبوری تو ہو جاتی ہے دنیا غیر ضروری تو ہو جاتی ہے ایک انائے بے چہرہ کے بدلے میں چلیے کچھ مشہوری
اپنی کیفیتیں ہر آن بدلتی ہوئی شام
اپنی کیفیتیں ہر آن بدلتی ہوئی شام منجمد ہوتی ہوئی اور پگھلتی ہوئی شام ڈگمگاتی ہوئی ہر گام سنبھلتی ہوئی شام خواب گاہوں سے ادھر
اک فنا کے گھاٹ اترا ایک پاگل ہو گیا
اک فنا کے گھاٹ اترا ایک پاگل ہو گیا یعنی منصوبہ زمانے کا مکمل ہو گیا جسم کے برفاب میں آنکھیں چمکتی ہیں ابھی کون
یہ پیڑ یہ پہاڑ زمیں کی امنگ ہیں
یہ پیڑ یہ پہاڑ زمیں کی امنگ ہیں سارے نشیب جن کی اٹھانوں پہ دنگ ہیں باہر ہو حبس پھر بھی دریچہ کھلا رکھوں یہ
وہ عطر خاک اب کہاں پانی کی باس میں
وہ عطر خاک اب کہاں پانی کی باس میں ہم نے بدل لیا ہے پیالہ گلاس میں کل رات آسمان مرا میہماں رہا کیا جانے
اک چادر بوسیدہ میں دوش پہ رکھتا ہوں
اک چادر بوسیدہ میں دوش پہ رکھتا ہوں اور دولت دنیا کو پاپوش پہ رکھتا ہوں آنکھوں کو ٹکاتا ہوں ہنگامۂ دنیا پر اور کان
وہ آسماں کے درخشندہ راہیوں جیسا
وہ آسماں کے درخشندہ راہیوں جیسا اندھیری شب میں سحر کی گواہیوں جیسا کرن شعور، دل جہل میں اتارتا جا کہ وقت آن پڑا ہے
اسیر حافظہ ہو آج کے جہان میں آؤ
اسیر حافظہ ہو آج کے جہان میں آؤ مکالمے کے لئے عصر کی زبان میں آؤ پئے ثبات تغیر پکارتے ہوئے گزرے چھتیں شکستہ ہیں
Nazm
آدم زاد کی دعا
زمیں کی تنگیوں کو اپنی بخشش سے کشادہ کر کہ سجدہ کر سکوں یہ کیا کہ میرے حوصلوں میں رفعتیں ہیں اور گرتا جا رہا
ہجر زاد
مرے دکھ کا عہد طویل ہے مرا نام لوح فراق پر ہے لکھا ہوا میں جنم جنم سے کسی میں عکس مشابہت کی تلاش میں
نیلی گرد کا زمزم
میں تخیل کے تشدد کا شکار دیکھتا ہوں آسماں سے سایہ سایہ چیتھڑے گرتے ہوئے سن رہا ہوں پھڑپھڑاتی دھوپ کی پیلی صدا درد کی
منکر کا خوف
پرانا پاسباں ظل الٰہی کا جسے چاہے کرے منصب عطا عالم پناہی کا اسے ترکیب آتی ہے کسی مضمون کہنہ کو نیا عنوان دینے کی
کایا کاکرب
اس نے دیکھا وہ اکیلا اپنی آنکھوں کی عدالت میں کھڑا تھا بے کشش اوقات میں بانٹی ہوئی صدیاں کسی جلاد کے قدموں کی آوازیں
آراکش نے
الف انا کو کاٹ دیا اپنے سائے پر اوندھا گرنے والا میں تھا لیکن کیا کرتا میرے شہر کی ساری گلیاں بند بھی تھیں متوازی
دیوار چین
کہاں سے پھیلا ہوا ہے یہ سلسلہ کہاں تک گزر گیا سیل ہمتوں کا بنا کے یہ کوس کوس صدیوں کی رہ گزر سی پہاڑ
Sher
مجھے چاند میں شکل دکھائی دے جو دہائی دے کوئی چارہ ہوش و حواس کرو کبھی آؤ نا آفتاب اقبال شمیم
ہر آنے والا نیا راستہ دکھاتا ہے اسی لئے تو ہمیں راہ پر نہیں آنا آفتاب اقبال شمیم
یہ میرا کنج مکاں میرا قصر عالی ہے میں اپنا سکۂ رائج یہیں پہ ڈھالتا ہوں آفتاب اقبال شمیم
اک عمر اک مکان کی تعمیر میں لگے ایام سے زیادہ گراں خشت و سنگ ہیں آفتاب اقبال شمیم
میں قید ہفت رنگ سے آزاد ہو گیا کل شب نقب لگا کے مکان حواس میں آفتاب اقبال شمیم
پیکر خاک ہیں اور خاک میں ہے ثقل بہت جسم کا وزن طلب ہم سے سنبھلتا ہی نہیں آفتاب اقبال شمیم
رواج ذہن سے میں اختلاف رکھتا تھا سر صلیب مجھے لے گیا فتور مرا آفتاب اقبال شمیم
دیتی ہے یہی وقت کی توریت گواہی زر کا جو اجالا ہے وہ ہے زر کا اندھیرا آفتاب اقبال شمیم
پتہ چلا کہ حرارت نہیں رہی دل میں گزر کے آگ سے آئے تھے اپنے مقصد تک آفتاب اقبال شمیم
یہ غم کے معنی تجھے لگے ہے سراب معنی اکیلے سہنا اسے غم مشترک نہ کرنا آفتاب اقبال شمیم
تھی صدف میں روشنی کی بوند تھرائی ہوئی جسم کے اندر کہیں دھڑکا لگا تھا قہر کا آفتاب اقبال شمیم
ذہن کی ہدایت ہے کاتب زمانہ کو عقل کی دلیلوں سے آج کا عقیدہ لکھ آفتاب اقبال شمیم