Kunwar Mahendra Singh Bedi Sahar
- 09 March 1909-18 July 1992
- Sahiwal, Pakistan
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Kunwar Mahendra Singh Bedi Sahar was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
خوشی یاد آئی کہ غم یاد آئے
خوشی یاد آئی کہ غم یاد آئے مگر تم ہمیں دم بہ دم یاد آئے جو تم یاد آئے تو غم یاد آئے جو غم
آئے ہیں سمجھانے لوگ
آئے ہیں سمجھانے لوگ ہیں کتنے دیوانے لوگ وقت پہ کام نہیں آتے ہیں یہ جانے پہچانے لوگ جیسے ہم ان میں پیتے ہیں لائے
ابھی وہ کمسن ابھر رہا ہے ابھی ہے اس پر شباب آدھا
ابھی وہ کمسن ابھر رہا ہے ابھی ہے اس پر شباب آدھا ابھی جگر میں خلش ہے آدھی ابھی ہے مجھ پر عتاب آدھا حجاب
زندگی سوز بنے ساز نہ ہونے پائے
زندگی سوز بنے ساز نہ ہونے پائے دل تو ٹوٹے مگر آواز نہ ہونے پائے درد اگر شامل آواز نہ ہونے پائے کوئی مونس کوئی
نت نت کا یہ آنا جانا میرے بس کی بات نہیں
نت نت کا یہ آنا جانا میرے بس کی بات نہیں دربانوں کے ناز اٹھانا میرے بس کی بات نہیں ساقی مے ساغر پیمانہ میرے
تم ہمارے نہیں تو کیا غم ہے
تم ہمارے نہیں تو کیا غم ہے ہم تمہارے تو ہیں یہ کیا کم ہے بال بکھرے ہیں آنکھ پر نم ہے مر گیا کون
ہم ان کے ستم کو بھی کرم جان رہے ہیں
ہم ان کے ستم کو بھی کرم جان رہے ہیں اور وہ ہیں کہ اس پر بھی برا مان رہے ہیں یہ لطف تو دیکھو
محبت کا ہوگا اثر رفتہ رفتہ
محبت کا ہوگا اثر رفتہ رفتہ نظر سے ملے گی نظر رفتہ رفتہ شب غم کی طولانیوں سے نہ گھبرا کہ اس کی بھی ہوگی
دل لیا ہے تو بے وفا نہ بنو
دل لیا ہے تو بے وفا نہ بنو درد مت دو اگر دوا نہ بنو یا نوازو تو لطف پیہم سے یا کسی کا تم
کرو جو چاہو ہم سے پوچھنا کیا
کرو جو چاہو ہم سے پوچھنا کیا ہماری آرزو کیا مدعا کیا سمجھ کا پھیر ہے اچھا برا سب جو سچ پوچھو تو اچھا کیا
پھول بھرے ہیں دامن دامن
پھول بھرے ہیں دامن دامن لیکن ویراں ویراں گلشن عشق کی مستی دل کی دھڑکن ایک جوانی دو دو جوبن دیکھے ہیں سب شیخ و
شوخی شباب حسن تبسم حیا کے ساتھ
شوخی شباب حسن تبسم حیا کے ساتھ دل لے لیا ہے آپ نے کس کس ادا کے ساتھ ہر لمحہ مانگتے ہیں دعا دید یار
Nazm
ذاکر حسین
تیری فطرت میں ہے گوبندؔ کا آثار مگر ابنؔ مریم کا مقلد ترا کردار مگر رام اور کرشن کے جیون سے تجھے پیار مگر بادۂ
دکن
جہاں فرد اپنی جگہ انجمن ہے جہاں ہر کلی اک مہکتا چمن ہے جہاں کی زمیں رشک چرخ کہن ہے جہاں شوخیاں ہیں ادا ہے
بابا گرو نانک دیو
ایک جسم ناتواں اتنی دباؤں کا ہجوم اک چراغ صبح اور اتنی ہواؤں کا ہجوم منزلیں گم اور اتنے رہنماؤں کا ہجوم اعتقاد خام اور
Sher
آئے ہیں سمجھانے لوگ
آئے ہیں سمجھانے لوگ ہیں کتنے دیوانے لوگ کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر
تم ہمارے نہیں تو کیا غم ہے
تم ہمارے نہیں تو کیا غم ہے ہم تمہارے تو ہیں یہ کیا کم ہے کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر
ہم ان کے ستم کو بھی کرم جان رہے ہیں
ہم ان کے ستم کو بھی کرم جان رہے ہیں اور وہ ہیں کہ اس پر بھی برا مان رہے ہیں کنور مہیندر سنگھ بیدی
آئیں ہیں سمجھانے لوگ
آئیں ہیں سمجھانے لوگ ہیں کتنے دیوانے لوگ کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر
مرنا تو لازم ہے اک دن جی بھر کے اب جی تو لوں
مرنا تو لازم ہے اک دن جی بھر کے اب جی تو لوں مرنے سے پہلے مر جانا میرے بس کی بات نہیں کنور مہیندر
پھر اس کے بعد ہمیں تشنگی رہے نہ رہے
پھر اس کے بعد ہمیں تشنگی رہے نہ رہے کچھ اور دیر مروت سے کام لے ساقی کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر
کسی اک آدھ مے کش سے خطا کچھ ہو گئی ہوگی
کسی اک آدھ مے کش سے خطا کچھ ہو گئی ہوگی مگر کیوں مے کدے کا مے کدہ بد نام ہے ساقی کنور مہیندر سنگھ
عشق و محبت کیا ہوتے ہیں کیا سمجھاؤں واعظ کو
عشق و محبت کیا ہوتے ہیں کیا سمجھاؤں واعظ کو بھینس کے آگے بین بجانا میرے بس کی بات نہیں کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر
مرے سوال وصال پر تم نظر جھکا کر کھڑے ہوئے ہو
مرے سوال وصال پر تم نظر جھکا کر کھڑے ہوئے ہو تمہیں بتاؤ یہ بات کیا ہے سوال پورا جواب آدھا کنور مہیندر سنگھ بیدی
مسکرانا کبھی نہ راس آیا
مسکرانا کبھی نہ راس آیا ہر ہنسی ایک واردات بنی کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر
اٹھا صراحی یہ شیشہ وہ جام لے ساقی
اٹھا صراحی یہ شیشہ وہ جام لے ساقی پھر اس کے بعد خدا کا بھی نام لے ساقی کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر
شوخی شباب حسن تبسم حیا کے ساتھ
شوخی شباب حسن تبسم حیا کے ساتھ دل لے لیا ہے آپ نے کس کس ادا کے ساتھ کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر
Qisse
ایک جیل کے قیدی
ہندوستان کے سابق ہوم منسٹر کیلاش ناتھ کاٹجو کی صدارت میں مشاعرہ ہو رہا تھا ۔ انور صابری جب اسٹیج پر آئے تو کلام پڑھنے
خس کم جہاں پاک
ایک دراز ریش، مولانا وضع کے شاعر کسی مشاعرے میں کہہ رہے تھے جوش ایسے ملحد، بے دین اور بے اصول آدمی کا ہندوستان سے
جہنم کی زبان
جن دنوں جوش ملیح آبادی ماہنامہ’’آج کل‘‘ کے مدیر اعلی تھے، ان کے دفتر میں اکثر شاعروں ادیبوں اور مداحوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔
مگر غریب کو کس جرم کی سزا دی ہے
گوپی ناتھ امن کے فرزند کی شادی تھی۔ انہوں نے دہلی کے دوست شعراء کو بھی مدعو کیا۔ ان میں کنور مہندر سنگھ بیدی بھی
شعر چور
کنور مہندر سنگھ بیدی دہلی میں آنریری مجسٹریٹ تھے تو پولس والے ایک شاعر کو چوری کے الزام میں گرفتار کرکے لائے۔ کنور صاحب شاعر
سنگھ کا شگوفہ
چیمسفورڈ کلب کے ایک مشاعرے میں، جس کی نظامت کنور مہندر سنگھ بیدی کررہے تھے، انہوں نے جناب عرش ملسیانی سے کلام سنانے کی گزارش
ایک پیروڈی مشاعرے کا قصہ
دہلی میں ایک پیروڈی شاعری کا مشاعرہ تھا۔ جب گلزار زتشی کا نام صدارت کے لئے پیش کیاگیا تو وہ انکسار سے بولے، ’’حضور، میں
چار مہینے کی دیوار
کسی مشاعرہ میں کوثر قریشی اپنی غزل کا یہ شعر پڑھ رہے تھے شرکت انجمن ناز ضروری ہے، مگر ہم پس سایۂ دیوار بہت اچھے
سنگھ کی انوکھی داد
دہلی کے ایک مشاعرے میں کنور مہندر سنگھ بیدی نے شعراء کو ڈائس پر بلایا تو ترتیب ایسی رکھی کہ شاعرات ان کے قریب رہیں۔
مدح زلف یار
دہلی کے ایک نظم گو شاعر زلف کی تعریف میں ایک اچھی خاصی طویل نظم سنارہے تھے۔ جب نظم سے لوگ اکتا گئے تو کنور
مشاعرے کا لوٹنا
1975ء کے ایک آل انڈیا مشاعرے میں ایک نوجوان شاعرہ نے اپنے حسن اور ترنم کے طفیل شرکت کاموقع حاصل کرلیا تھا۔ جب موصوفہ نے
وہ خزانہ جو اکثر دیوالیہ بنا دیتا ہے
ایک مشاعرے میں نریش کمار شاد نے اپنی باری پر جب حسب ذیل قطعہ پڑھا جو بھی عورت ہے ساز ہستی کا بیش قیمت سا