Qateel Shifai
- 24 December 1919-11 July 2001
- Haripur District, KPK Pakistan
Introduction
1994 میں پاکستان حکومت نے ادب میں ان کی خدمات کیلئے انہیں “دی پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ” سے نوازا.
1964 میں انہیں “آدم جی ادبی ایوارڈ” اور “نقوش ایوارڈ” ، اور “اباسین آرٹس کونسل ایوارڈ” ملا جو سب پاکستان میں انہیں دئے گئے تھے.
1998 میں انہوں نے 9 ویں پی ٹی وی ایوارڈز میں بہترین شاعر ایوارڈ جیتا.
“امیر خسرو ایوارڈ” ان کو ہندوستان میں دیا گیا تھا.
1999 میں پاکستان فلم انڈسٹری میں اپنی زندگی بھر کی خدمات کے لئے، انہیں “اسپیشل ملینیم نگر ایوارڈ” سے نوازا گیا”. 1958 ، 1965 ، اور 1979 میں انہوں نے 3 نگر ایوارڈ بھی جیتا.
انہوں نے 1970 میں اپنی مادری زبان ہندکو میں ایک فلم بھی تیار کی، جو “قصہ خوانی” نامی پہلی ہندکو فلم تھی”. 1980 میں یہ فلم ریلیز ہوئی. ان کی وفات 11 جولائی 2001 کو لاہور میں ہوئی. جس گلی میں وہ رہتے تھے اس کا نام قتیل شفائی اسٹریٹ رکھا گیا ہے. ہری پور سٹی میں، ایک علاقے ہے جس کا نام محلہ قتیل شفائی رکھا گیا ہے.
Ghazal
گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
اپنے ہونٹوں پر سجانا چاہتا ہوں
اپنے ہونٹوں پر سجانا چاہتا ہوں آ تجھے میں گنگنانا چاہتا ہوں کوئی آنسو تیرے دامن پر گرا کر بوند کو موتی بنانا چاہتا ہوں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجا لے مجھ کو
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجا لے مجھ کو میں ہوں تیرا تو نصیب اپنا بنا لے مجھ کو میں جو کانٹا ہوں تو چل
پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ سکوت مرگ طاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ ہنسو اور ہنستے ہنستے ڈوبتے جاؤ خلاؤں
صدمہ تو ہے مجھے بھی کہ تجھ سے جدا ہوں میں
صدمہ تو ہے مجھے بھی کہ تجھ سے جدا ہوں میں لیکن یہ سوچتا ہوں کہ اب تیرا کیا ہوں میں بکھرا پڑا ہے تیرے
تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں
تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں کس کو خبر تھی
یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہوں سائے کو بدن
وہ دل ہی کیا ترے ملنے کی جو دعا نہ کرے
وہ دل ہی کیا ترے ملنے کی جو دعا نہ کرے میں تجھ کو بھول کے زندہ رہوں خدا نہ کرے رہے گا ساتھ ترا
کیا ہے پیار جسے ہم نے زندگی کی طرح
کیا ہے پیار جسے ہم نے زندگی کی طرح وہ آشنا بھی ملا ہم سے اجنبی کی طرح کسے خبر تھی بڑھے گی کچھ اور
تمہاری انجمن سے اٹھ کے دیوانے کہاں جاتے
تمہاری انجمن سے اٹھ کے دیوانے کہاں جاتے جو وابستہ ہوئے تم سے وہ افسانے کہاں جاتے نکل کر دیر و کعبہ سے اگر ملتا
وہ شخص کہ میں جس سے محبت نہیں کرتا
وہ شخص کہ میں جس سے محبت نہیں کرتا ہنستا ہے مجھے دیکھ کے نفرت نہیں کرتا پکڑا ہی گیا ہوں تو مجھے دار پہ
حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا لیکن
Nazm
زندگی یا طوائف
مطمئن کوئی نہیں ہے اس سے کوئی برہم ہے تو خائف کوئی نہیں کرتی یہ کسی سے بھی وفا زندگی ہے کہ طوائف کوئی قتیل
آج کی باتیں کل کے سپنے
جب بھی تنہا مجھے پاتے ہیں گزرتے لمحے تیری تصویر سی راہوں میں بچھا جاتے ہیں میں کہ راہوں میں بھٹکتا ہی چلا جاتا ہوں
یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں
یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں جو میں نے تجھ سے بچھڑ کے لکھیں انہیں کوئی چھاپتا نہیں ہے میں جب بھی تیرے فراق کا
آپ بیتی
میرے خوابوں کے شبستاں میں اجالا نہ کرو کہ بہت دور سویرا نظر آتا ہے مجھے چھپ گئے ہیں مری نظروں سے خد و خال
تیرے خطوں کی خوشبو
تیرے خطوں کی خوشبو ہاتھوں میں بس گئی ہے سانسوں میں رچ رہی ہے خوابوں کی وسعتوں میں اک دھوم مچ رہی ہے جذبات کے
لمحوں کی پرستار
میں نے چاہا تھا اسے روح کی راحت کے لیے آج وہ جان کا آزار بنی بیٹھی ہے میری آنکھوں نے جسے پھول سے نازک
شاعری سچ بولتی ہے
لاکھ پردوں میں رہوں بھید مرے کھولتی ہے شاعری سچ بولتی ہے میں نے دیکھا ہے کہ جب مری زباں ڈولتی ہے شاعری سچ بولتی
بھروسہ
ایک پتنگا تنہا تنہا! شام ڈھلے اس فکر میں تھا یہ تنہائی کیسے کٹے گی رات ہوئی اور شمع جلی مغموم پتنگا جھوم اٹھا ہنستے
چکلے
رات گئے تک گھایل نغمے کرتے ہیں اعلان یہاں یہ دنیا ہے سنگ دلوں کی کوئی نہیں انسان یہاں عزت والوں کی ذلت کا سب
اندیشہ
صندلیں جسم کی خوشبو سے مہکتی ہوئی رات مجھ سے کہتی ہے یہیں آج بسیرا کر لے گر تری نیند اجالوں کی پرستار نہیں اپنے
سانولی
سانولے جسم کی ہر قوس میں لہراتا ہے مسکراتی ہوئی شاموں کا سلونا جادو رقص کرتی ہے ترے حسن کی رعنائی میں وادیٔ نجد کے
درد مشترک
میں نے جو ظلم کبھی تجھ سے روا رکھا تھا آج اسی ظلم کے پھندے میں گرفتار ہوں میں میں نے جو تیر ترے ہاتھ
Sher
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں قتیل شفائی
ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے
ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جاؤ قتیل شفائی
آخری ہچکی ترے زانوں پہ آئے
آخری ہچکی ترے زانوں پہ آئے موت بھی میں شاعرانہ چاہتا ہوں قتیل شفائی
چلو اچھا ہوا کام آ گئی دیوانگی اپنی
چلو اچھا ہوا کام آ گئی دیوانگی اپنی وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے قتیل شفائی
دل پہ آئے ہوئے الزام سے پہچانتے ہیں
دل پہ آئے ہوئے الزام سے پہچانتے ہیں لوگ اب مجھ کو ترے نام سے پہچانتے ہیں قتیل شفائی
یوں لگے دوست ترا مجھ سے خفا ہو جانا
یوں لگے دوست ترا مجھ سے خفا ہو جانا جس طرح پھول سے خوشبو کا جدا ہو جانا قتیل شفائی
اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن
اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں قتیل شفائی
دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا قتیل شفائی
ہم اسے یاد بہت آئیں گے
ہم اسے یاد بہت آئیں گے جب اسے بھی کوئی ٹھکرائے گا قتیل شفائی
وصل کی رات نہ جانے کیوں اصرار تھا ان کو جانے پر
وصل کی رات نہ جانے کیوں اصرار تھا ان کو جانے پر وقت سے پہلے ڈوب گئے تاروں نے بڑی دانائی کی قتیل شفائی
اک جام کھنکتا جام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
اک جام کھنکتا جام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے اک ہوش ربا انعام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے قتیل شفائی
ہم نے کی عرض اے بندہ پرور کیوں ستم ڈھا رہے ہو یوں ہم پر
ہم نے کی عرض اے بندہ پرور کیوں ستم ڈھا رہے ہو یوں ہم پر بات سن کر ہماری وہ بولے ہم سے تکرار کرنا