Mazhar Imam
- 12 March 1928-30 January 2012
- Munger, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Mazhar Imam was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
اپنے کھوئے ہوئے لمحات کو پایا تھا کبھی
اپنے کھوئے ہوئے لمحات کو پایا تھا کبھی میں نے کچھ وقت ترے ساتھ گزارا تھا کبھی آپ کو میرے تعارف کی ضرورت کیا ہے
کوسوں دور کنارا ہوگا
کوسوں دور کنارا ہوگا کشتی ہوگی دریا ہوگا پاس تمہیں ہو تم ہی بتاؤ کوئی مجھ سا تنہا ہوگا آؤ اور قریب آ جاؤ وقت
زندگی کاوش باطل ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ
زندگی کاوش باطل ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ تو ہی اک عمر کا حاصل ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ لوگ ملتے ہیں سر راہ گزر
چپکے چپکے یہ کام کرتا جا
چپکے چپکے یہ کام کرتا جا کام سب کا تمام کرتا جا ہم کو بد نام کر زمانے میں کچھ زمانے میں نام کرتا جا
مزہ لمس کا بے زبانی میں تھا
مزہ لمس کا بے زبانی میں تھا عجب ذائقہ خوش گمانی میں تھا مری وسعتوں کو کہاں جانتا وہ محو اپنی ہی بے کرانی میں
سانحہ یہ بھی اک روز کر جاؤں گا
سانحہ یہ بھی اک روز کر جاؤں گا وقت کی پالکی سے اتر جاؤں گا اپنے ٹوٹے ہوئے خواب کی کرچیاں تیری آسودہ آنکھوں میں
اپنے رستے ہوئے زخموں کی قبا لایا ہوں
اپنے رستے ہوئے زخموں کی قبا لایا ہوں زندگی میری طرف دیکھ کہ میں آیا ہوں کسی سنسان جزیرے سے پکارو مجھ کو میں صداؤں
جو زیاں دل کا ہوا اس کا ازالہ ہو جاؤں
جو زیاں دل کا ہوا اس کا ازالہ ہو جاؤں اب تو اظہار محبت کا سلیقہ ہو جاؤں کھینچنا ہے ترے دامن کو حریفانہ مجھے
اک گزارش ہے بس اتنا کیجیے
اک گزارش ہے بس اتنا کیجیے جب کبھی فرصت ہو آیا کیجیے لوگ اس کا بھی غلط مطلب نہ لیں اجنبیت سے نہ دیکھا کیجیے
نگاہ و دل کے پاس ہو وہ میرا آشنا رہے
نگاہ و دل کے پاس ہو وہ میرا آشنا رہے ہوس ہے یا کہ عشق ہے یہ کون سوچتا رہے وہ میرا جب نہ ہو
شکریہ تیرا کہ غم کا حوصلہ رہنے دیا
شکریہ تیرا کہ غم کا حوصلہ رہنے دیا بے اثر کر دی دعا دست دعا رہنے دیا منصفی کا شور محشر گونجتا رہنے دیا سب
زمانہ اب یہ کیسا آ رہا ہے
زمانہ اب یہ کیسا آ رہا ہے کہ ہر بدمست سنبھلا جا رہا ہے جلاتی ہے خرد شمعوں پہ شمعیں اندھیرا ہے کہ بڑھتا جا
Nazm
اشتراک
خیر اچھا ہو تم بھی میرے قبیلے میں آ ہی گئے اس قبیلے میں کوئی کسی کا نہیں ایک غم کے سوا چہرہ اترا ہوا
رشتہ گونگے سفر کا
یہ کس جنم میں ہم دوبارہ ملے ہیں یہ خط رنگ قد سب مجھے جانتے ہیں مرے لمس سے آشنا ہیں میں بھٹکا ہوں کتنے
اکھڑتے خیموں کا درد
کہیں بھی جائے اماں نہیں ہے نہ روشنی میں نہ تیرگی میں نہ زندگی میں نہ خودکشی میں عقیدے زخموں سے چور پیہم کراہتے ہیں
آنگن میں ایک شام
شام کی لمحہ لمحہ اترتی ہوئی دھند میں سر جھکائے ہوئے گھر کے خاموش آنگن میں بیٹھے ہوئے میری واماندہ آنکھوں کی جلتی ہوئی ریت
بے ادب ستاروں نے
بے ادب ستاروں نے نیند میں مخل ہو کر تم سے کچھ کہا ہوگا لیکن ان کی باتوں کا تم یقین مت کرنا آؤ آ
Sher
اب اس کو سوچتے ہیں اور ہنستے جاتے ہیں کہ تیرے غم سے تعلق رہا ہے کتنی دیر مظہر امام
ہم نے تو دریچوں پہ سجا رکھے ہیں پردے باہر ہے قیامت کا جو منظر تو ہمیں کیا مظہر امام
ایک درد جدائی کا غم کیا کریں کس مرض کی دوا ہے ترے شہر میں مظہر امام
اکثر ایسا بھی محبت میں ہوا کرتا ہے کہ سمجھ بوجھ کے کھا جاتا ہے دھوکا کوئی مظہر امام
نہ اتنی دور جائیے کہ لوگ پوچھنے لگیں کسی کو دل کی کیا خبر یہ ہاتھ تو ملا رہے مظہر امام
عصر نو مجھ کو نگاہوں میں چھپا کر رکھ لے ایک مٹتی ہوئی تہذیب کا سرمایہ ہوں مظہر امام
بستیوں کا اجڑنا بسنا کیا بے جھجک قتل عام کرتا جا مظہر امام
ہمیں وہ ہمیں سے جدا کر گیا بڑا ظلم اس مہربانی میں تھا مظہر امام
چلو ہم بھی وفا سے باز آئے محبت کوئی مجبوری نہیں ہے مظہر امام
محبت آپ ہی منزل ہے اپنی نہ جانے حسن کیوں اترا رہا ہے مظہر امام
Khaka
جگر مراد آبادی
جگر صاحب کا نام بچپن سے ہی سنتاآیا تھا۔ میٹرک کا طالب علم تھا جب اپنے بڑے بھائی جناب حسن امام دردؔکے اصرار پر پہلی
کرشن چندر
کرشن چندر زباں پہ بار خدایا۔ کہ اس نام کے آتے ہی میری نطق نے میری زبان کے بوسے لیے، لیکن کبھی آپ نے سوچا