Akbar Allahabadi
- 16 November 1846 – 9 September 1921
- Bara, India
Introduction
Ghazal
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جُو پی لی ہے
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جُو پی لی ہے ڈاکا تُو نہیں مارا چوری تُو نہیں کی ہے نا تجربہ کاری سے واعظ کی
غمزہ نہیں ہوتا کے اشارا نہیں ہوتا
غمزہ نہیں ہوتا کے اشارا نہیں ہوتا آنکھ ان سے جُو ملتِی ہے تُو کیا کیا نہیں ہوتا جلوہ نہ ہو معنی کا تُو صورت
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں بازار سے گزرا ہوں ، خریدار نہیں ہوں زندہ ہوں مگر زیست کی لذت نہیں باقی
چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں
چرخ سے کچھ امید تھی ہی نہیں آرزو میں نے کوئی کی ہی نہیں مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں فالتو عقل مُجھ میں
آنکھیں مُجھے تلووں سے وُہ ملنے نہیں دیتے
آنکھیں مُجھے تلووں سے وُہ ملنے نہیں دیتے ارمان میرے دِل کہ نکلنے نہیں دیتے خاطر سے تیری یاد کو ٹلنے نہیں دیتے سچ ہے
فلسفی کو بحث کہ اندر خُدا ملتا نہیں
فلسفی کو بحث کہ اندر خُدا ملتا نہیں ڈور کو سلجھا رہا ہے ، اُور سرا ملتا نہیں معرفت خالق کی عالم میں بہت دشوار
آہ جُو دِل سے نکالی جائے گی
آہ جُو دِل سے نکالی جائے گی کیا سمجھتے ہو کے خالی جائے گی اِس نزاکت پر یہ شمشیر جفا آپ سے کیوں کر سنبھالی
گلے لگائیں کریں تم کو پیار عید کہ دِن
گلے لگائیں کریں تم کو پیار عید کہ دِن ادھر تُو آؤ میرے گلعذار عید کہ دِن غضب کا حُسن ہے آرائشیں قیامت کی عیاں
دِل میرا جس سے بہلتا کوئی ایسا نہ ملا
دِل میرا جس سے بہلتا کوئی ایسا نہ ملا بت کہ بندے ملے اللہ کا بندا نہ مِلا بزم یاراں سے پھری باد بہاری مایوس
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مُسکرا دینا
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مُسکرا دینا حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا یہ طرز احسان کرنے کا تمہیں کو
حال دِل میں سنا نہیں سکتا
حال دِل میں سنا نہیں سکتا لفظ معنیٰ کو پا نہیں سکتا عشق نازک مزاج ہے بے حد عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا ہوش
وُہ ہوا نہ رہی وُہ چمن نہ رہا وہ گلی نہ رہی وُہ حسیں نہ رہے
وُہ ہوا نہ رہی ، وُہ چمن نہ رہا ، وہ گلی نہ رہی ، وُہ حسیں نہ رہے وُہ فلک نہ رہا وُہ سماں
Nazm
آم نامہ
نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجئے اِس فصل میں جُو بھیجئے بس آم بھیجئے ایسا ضرور ہو کے انہیں رکھ کہ کھا سکوں پختہ
جلوۂ دربار دہلی
سر میں شُوق کا سودا دیکھا دہلی کو ہم نے بھی جا دیکھا جُو کچھ دیکھا اچھا دیکھا کیا بتلائیں کیا کیا دیکھا جمنا جی
نئی تہذیب
یہ موجودہ طریقے راہیٔ ملک عدم ہوں گے نئی تہذیب ہوگی اُور نئے ساماں بہم ہوں گے نئے عنوان سے زینت دکھائیں گے حسیں اپنی
مدرسہ علی گڑھ
خدا علی گڑھ کہ مدرسے کو تمام امراض سے شفا دے بھرے ہوئے ہیں رئیس زادے امیر زادے شریف زادے لطیف و خوش وضع چست
۱۹۱۱دربار
دیکھ آئے ہم بھی دُو دِن رہ کہ دہلی کی بہار حکم حاکم سے ہوا تھا اجتماع انتشار آدمی اُور جانور اُور گھر مزین اُور
مس سیمیں بدن
ایک مس سیمیں بدن سے کر لیا لندن میں عقد اِس خطا پر سن رہا ہوں ، طعنہ ہائے دِل خراش کوئی کہتا ہے کے
سب جانتے ہیں علم سے ہے زندگی کی روح
سب جانتے ہیں علم سے ہے ، زندگی کی روح بے علم ہے اگر تُو وُہ انساں ہے نا تمام بے علم و بے ہنر
سید سے آج حضرت واعظ نے یہ کہا
سید سے آج حضرت واعظ نے یہ کہا چرچا ہے جا بجا تیرے حال تباہ کا سمجھا ہے تُو نے نیچر و تدبیر کو خدا
Sher
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام
ہم آہ بھی کرتے ہیں تُو ہو جاتے ہیں بد نام .وُہ قتِل بھی کرتے ہیں تُو چرچا نہیں ہوتا اکبر الہ آبادی
پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
پیدا ہوا وکیل تُو شیطان نے کہا .لو آج ہم بھی صاحب اُولاد ہو گئے اکبر الہ آبادی
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
دُنیا میں ہوں دُنیا کا طلب گار نہیں ہوں .بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں اکبر الہ آبادی
جو کہا میں نے کے پیار آتا ہے مجھ کو تم پر
جُو کہا میں نے کے پیار آتا ہے مُجھ کو تم پر .ہنس کہ کہنے لگا اُور آپ کو آتا کیا ہے اکبر الہ آبادی
عشق نازک مزاج ہے بے حد
عشق نازک مزاج ہے بے حد .عقل کا بُوجھ اُٹھا نہیں سکتا اکبر الہ آبادی
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مُسکرا دینا .حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا اکبر الہ آبادی
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں .فالتو عقل مُجھ میں تھی ہی نہیں اکبر الہ آبادی
آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت
آئی ہوگی کسی کو ہجر میں مُوت .مُجھ کو تُو نیند بھی نہیں آتی اکبر الہ آبادی
الٰہی کیسی کیسی صورتیں تو نے بنائی ہیں
الٰہی کیسی کیسی صورتیں تُو نے بنائی ہیں .کے ہر صورت کلیجے سے لگا لینے کہ قابل ہے اکبر الہ آبادی
میں بھی گریجویٹ ہوں تم بھی گریجویٹ
میں بھی گریجویٹ ہوں تُم بھی گریجویٹ .علمی مباحثے ہوں ذرا پاس آ کہ لیٹ اکبر الہ آبادی
عشق کہ اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے
عشق کہ اظہار میں ہر چند رسوائی تُو ہے .پر کروں کیا اب طبیعت آپ پر آئی تُو ہے اکبر الہ آبادی
آہ جو دل سے نکالی جائے گی
آہ جُو دِل سے نکالی جائے گی .کیا سمجھتے ہو کے خالی جائے گی اکبر الہ آبادی
Rubai
ہر ایک سے سنا نیا فسانہ ہم نے
ہر ایک سے سنا نیا فسانہ ہم نے دیکھا دنیا میں ایک زمانہ ہم نے اول یہ تھا کہ واقفیت پہ تھا ناز آخر یہ
یہ بات غلط کہ دار الاسلام ہے ہند
یہ بات غلط کہ دار الاسلام ہے ہند یہ جھوٹ کہ ملک لچھمنؔ و رامؔ ہے ہند ہم سب ہیں مطیع و خیر خواہ انگلش
دنیا کرتی ہے آدمی کو برباد
دنیا کرتی ہے آدمی کو برباد افکار سے رہتی ہے طبیعت ناشاد دو چیزیں ہیں بس محافظ دل کی عقبیٰ کا تصور اور اللہ کی
ہر ایک کو نوکری نہیں ملنے کی
ہر ایک کو نوکری نہیں ملنے کی ہر باغ میں یہ کلی نہیں کھلنے کی کچھ پڑھ کے تو صنعت و زراعت کو دیکھ عزت
افسوس سفید ہو گئے بال ترے
افسوس سفید ہو گئے بال ترے لیکن ہیں سیاہ اب بھی اعمال ترے تو زلف بتاں بنا ہوا ہے اب تک دنیا پہ ہنوز پڑتے
کہہ دو کہ میں خوش ہوں رکھوں گر آپ کو خوش
کہہ دو کہ میں خوش ہوں رکھوں گر آپ کو خوش بجلی چمکاؤں اور کروں بھاپ کو خوش سیکھوں ہر علم و فن مگر فرض
بھولتا جاتا ہے یورپ آسمانی باپ کو
بھولتا جاتا ہے یورپ آسمانی باپ کو بس خدا سمجھا ہے اس نے برق کو اور بھاپ کو برق گر جائے گی اک دن اور
دنیا سے میل کی ضرورت ہی نہیں
دنیا سے میل کی ضرورت ہی نہیں مجھ کو اس کھیل کی ضرورت ہی نہیں درپیش ہے منزل عدم اے اکبرؔ اس راہ میں ریل
روزی مل جائے مال و دولت نہ سہی
روزی مل جائے مال و دولت نہ سہی راحت ہو نصیب شان و شوکت نہ سہی گھر بار میں خوش رہیں عزیزوں کے ساتھ دربار
وہ لطف اب ہندو مسلماں میں کہاں
وہ لطف اب ہندو مسلماں میں کہاں اغیار ان پر گزرتے ہیں اب خندہ زناں جھگڑا کبھی گائے کا زباں کی کبھی بحث ہے سخت
اسمال نہیں گریٹ ہونا اچھا
اسمال نہیں گریٹ ہونا اچھا دل ہونا برا ہے پیٹ ہونا اچھا پنڈت ہو کہ مولوی ہو دونوں بے کار انساں کو گریجویٹ ہونا اچھا
کیا تم سے کہیں جہاں کو کیسا پایا
کیا تم سے کہیں جہاں کو کیسا پایا غفلت ہی میں آدمی کو ڈوبا پایا آنکھیں تو بے شمار دیکھیں لیکن کم تھیں بخدا کہ
Humour/Satire
برق کلیسا
رات اس مس سے کلیسا میں ہوا میں دو چار ہائے وہ حسن وہ شوخی وہ نزاکت وہ ابھار زلف پیچاں میں وہ سج دھج
فرضی لطیفہ
خدا حافظ مسلمانوں کا اکبرؔ مجھے تو ان کی خوشحالی سے ہے یاس یہ عاشق شاہد مقصود کے ہیں نہ جائیں گے ولیکن سعی کے
Qita
عشرتیؔ گھر کی محبت کا مزا بھول گئے
عشرتیؔ گھر کی محبت کا مزا بھول گئے کھا کے لندن کی ہوا عہد وفا بھول گئے پہنچے ہوٹل میں تو پھر عید کی پروا
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں اکبرؔ زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا
نئی تہذیب میں بھی مذہبی تعلیم شامل ہے
نئی تہذیب میں بھی مذہبی تعلیم شامل ہے مگر یوں ہی کہ گویا آب زمزم مے میں داخل ہے کہاں تک داد دوں تیری بلاغت
چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا
میں نے کہا کیوں لاش پہ آقا کی ہے مرتا
میں نے کہا کیوں لاش پہ آقا کی ہے مرتا ہوٹل کی طرف جا کہ غذا بھی ہے کوئی چیز کتے نے کہا ہو یہ
دیکھتا ہے اک عمر سے بندہ
دیکھتا ہے اک عمر سے بندہ بس یہی باتیں اور یہی فنڈہ ہوتا ہے کچھ کام نہ دھندہ لاؤ چندہ لاؤ چندہ اکبر الہ آبادی
اک برگ ضمحل نے یہ اسپیچ میں کہا
اک برگ ضمحل نے یہ اسپیچ میں کہا موسم کی کچھ خبر نہیں اے ڈالیو تمہیں اچھا جواب خشک یہ اک شاخ نے دیا موسم
اب کہاں تک بت کدہ میں صرف ایماں کیجئے
اب کہاں تک بت کدہ میں صرف ایماں کیجئے تا کجا عشق بتاں میں سست پیماں کیجئے ہے یہی بہتر علی گڑھ جا کے سید
کونسل میں نکتہ چینوں کی ٹولی بہت پٹی
کونسل میں نکتہ چینوں کی ٹولی بہت پٹی اچھا ہوا سنبھل گئی اب یونیورسٹی بیکار کالجوں سے بھرے گی نہ ہر سٹی اس بل سے
جو لوگ طرف دار علی گڑھ کے رہیں گے
جو لوگ طرف دار علی گڑھ کے رہیں گے اس دور میں بے شک وہی بڑھ چڑھ کے رہیں گے مفلس رہیں بے نام رہیں
جس روشنی میں لوٹ ہی کی آپ ہمیں سوجھے
جس روشنی میں لوٹ ہی کی آپ ہمیں سوجھے تہذیب کی میں اس کو تجلی نہ کہوں گا لاکھوں کو مٹا کر جو ہزاروں کو
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا ہے
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا ہے نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں کہا جو چاہے کوئی میں تو
Qisse
مجھے علم آیا نہ انہیں عقل
اکبرکے مشہور ہوجانے پر بہت سے لوگوں نے ان کی شاگردی کا دعوی کردیا۔ ایک صاحب کو دور کی سوجھی۔ انہوں نے خود کو اکبر
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
کلکتہ کی مشہور مغنیہ گوہر جان ایک مرتبہ الہ آباد گئی اور جانکی بائی طوائف کے مکان پر ٹھہری۔ جب گوہر جان رخصت ہونے لگی
داڑھی سے مونچھ تک
نامور ادیب اور شاعر مرحوم سید اکبر حسین اکبرؔ الہ آبادی اپنی روشن خیالی کے باوجود مشرقی تہذیب کے دلدادہ تھے اور وضع کے پابند۔
حوروں کا نزول
اکبر الہ آبادی ایک بار خواجہ حسن نظامی کے ہاں مہمان تھے۔ دو طوائفیں حضرت نظامی سے تعویذ لینے آئیں۔ خواجہ صاحب گاؤ تکیہ سے
ہر چند کہ کوٹ بھی ہے پتلون بھی ہے
الہ آباد کے ایک ایٹ ہوم میں اکبر الہ آبادی بھی شریک ہوئے۔ وہاں طرح طرح کے انگریزی لباس پہنے ہوئے ہندستانی جمع تھے۔ ایک
جان من تم تو خود پٹاخہ ہو
ایک دن اکبر الہ آبادی سے ان کے ایک دوست ملنے آئے۔ اکبرؔ نے پوچھا، ’’کہئے آج ادھر کیسے بھول پڑے۔‘‘ انہوں نے جواب دیا،
خالو کے آلو
اکبرالہ آبادی دلی میں خواجہ حسن نظامی کے ہاں مہمان تھے۔ سب لوگ کھانا کھانے لگے تو آلو کی ترکاری اکبر کو بہت پسند آئی۔
انتڑیوں کا قل ھو اللہ پڑھنا
ایک مرتبہ حضرت اکبر الہ آبادی کے ایک دوست نے انہیں ایک ٹوپی دکھائی جس پر قل ہواللہ کڑھا ہوا تھا۔ آپ نے دیکھتے ہی
Mukhammas
نہ قید شرع باقی ہے نہ آزادی کی ہے کچھ حد
نہ قید شرع باقی ہے نہ آزادی کی ہے کچھ حد نہیں کچھ گفتگو اس باب میں یہ نیک ہے یا بد بزرگوں کا بھی