Makhmoor Saeedi
- 31 December 1938 - 2 March 2010
- Tonk, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
لکھ کر ورق دل سے مٹانے نہیں ہوتے
لکھ کر ورق دل سے مٹانے نہیں ہوتے کچھ لفظ ہیں ایسے جو پرانے نہیں ہوتے جب چاہے کوئی پھونک دے خوابوں کے نشیمن آنکھوں
مدتوں بعد ہم کسی سے ملے
مدتوں بعد ہم کسی سے ملے یوں لگا جیسے زندگی سے ملے ساتھ رہنا مگر جدا رہنا یہ سبق ہم کو آپ ہی سے ملے
فضا میں کیسی اداسی ہے کیا کہا جائے
فضا میں کیسی اداسی ہے کیا کہا جائے عجیب شام یہ گزری ہے کیا کہا جائے کئی گمان ہمیں زندگی پہ گزرے ہیں یہ اجنبی
شہر اجڑے ہوئے خوابوں کے بسائے کیا کیا
شہر اجڑے ہوئے خوابوں کے بسائے کیا کیا نیند میں ہم نے در و بام سجائے کیا کیا ہر قدم پر کسی منزل کا گزرتا
جانب کوچہ و بازار نہ دیکھا جائے
جانب کوچہ و بازار نہ دیکھا جائے غور سے شہر کا کردار نہ دیکھا جائے کھڑکیاں بند کریں چھپ کے گھروں میں بیٹھیں کیا سماں
سن لی صدائے کوہ ندا اور چل پڑے
سن لی صدائے کوہ ندا اور چل پڑے ہم نے کسی سے کچھ نہ کہا اور چل پڑے سائے میں دو گھڑی بھی نہ ٹھہرے
مجھ میں کسی کا عکس نہ پرتو خالی آئینہ ہوں میں
مجھ میں کسی کا عکس نہ پرتو خالی آئینہ ہوں میں میرے ٹکڑے کون سمیٹے اب ٹوٹوں یا بکھروں میں میری رسائی میری حدوں تک
غم و نشاط کی ہر رہ گزر میں تنہا ہوں
غم و نشاط کی ہر رہ گزر میں تنہا ہوں مجھے خبر ہے میں اپنے سفر میں تنہا ہوں مجھی پہ سنگ ملامت کی بارشیں
یہ کیسا ربط ہوا دل کو تیری ذات کے ساتھ
یہ کیسا ربط ہوا دل کو تیری ذات کے ساتھ ترا خیال اب آتا ہے بات بات کے ساتھ کٹھن تھا مرحلۂ انتظار صبح بہت
لبوں پہ ہے جو تبسم تو آنکھ پر نم ہے
لبوں پہ ہے جو تبسم تو آنکھ پر نم ہے شعور غم کا یہ عالم عجیب عالم ہے گزر نہ جادۂ امکاں سے بے خیالی
آ گیا ہو نہ کوئی بھیس بدل کر دیکھو
آ گیا ہو نہ کوئی بھیس بدل کر دیکھو دو قدم سائے کے ہم راہ بھی چل کر دیکھو میہماں روشنیو سخت اندھیرا ہے یہاں
کتنی دیواریں اٹھی ہیں ایک گھر کے درمیاں
کتنی دیواریں اٹھی ہیں ایک گھر کے درمیاں گھر کہیں گم ہو گیا دیوار و در کے درمیاں کون اب اس شہر میں کس کی
Nazm
ایک پرانا شہر
مہر بہ لب ویران دریچے دروازے سنسان دور پہاڑوں کی چوٹی پر شاہی گورستان نیم کی شاخوں میں الجھی ہے کنکوے کی کانپ دیواروں پر
زمیں کا یہ ٹکڑا
زمیں کا یہ ٹکڑا مرے بڑھتے قدموں کو چاروں دشاؤں سے اپنی طرف کھینچتا ہے گلے سے لگا کر مجھے بھینچتا ہے کہ بارہ برس
وہ شہر اب بھی اسی جگہ ہے
وہ شہر اب بھی اسی جگہ ہے وہ سرد ریتیلے راستے آج بھی انہی وادیوں کی جانب رواں دواں ہیں جہاں گھنے جھنڈ ہیں درختوں
لفظوں کا المیہ
نئے نئے لفظ شور کرتے بڑھے چلے آ رہے ہیں فکر و خیال کی رہ گزار آباد ہو رہی ہے زباں بہت سی پرانی حد
بلاوا
ذرا ٹھہرو کدھر ہم جا رہے ہیں ادھر اس چار دیواری کے پیچھے وہ بوڑھا گورکن چلا رہا ہے ”ادھر آؤ قدم جلدی بڑھاؤ یہاں
ناستک
یہ مرا شیشۂ دل آئنۂ سادہ و صاف ثبت کچھ اس پہ مشیت کے فرامین بھی ہیں رنگ امید کے رہ رہ کے نکھرتے ہیں
سفر کا آخری منظر
سفر پر چلے تھے تو سوچا تھا کیا کچھ کئی راستے اپنے قدموں سے ہم روند دیں گے کئی ہم سفر ہر قدم پر ملیں
Sher
ہو جائے جہاں شام وہیں ان کا بسیرا
ہو جائے جہاں شام وہیں ان کا بسیرا آوارہ پرندوں کے ٹھکانے نہیں ہوتے مخمور سعیدی
بتوں کو پوجنے والوں کو کیوں الزام دیتے ہو
بتوں کو پوجنے والوں کو کیوں الزام دیتے ہو ڈرو اس سے کہ جس نے ان کو اس قابل بنایا ہے مخمور سعیدی
گھر میں رہا تھا کون کہ رخصت کرے ہمیں
گھر میں رہا تھا کون کہ رخصت کرے ہمیں چوکھٹ کو الوداع کہا اور چل پڑے مخمور سعیدی
میں اس کے وعدے کا اب بھی یقین کرتا ہوں
میں اس کے وعدے کا اب بھی یقین کرتا ہوں ہزار بار جسے آزما لیا میں نے مخمور سعیدی
سرخیاں خون میں ڈوبی ہیں سب اخباروں کی
سرخیاں خون میں ڈوبی ہیں سب اخباروں کی آج کے دن کوئی اخبار نہ دیکھا جائے مخمور سعیدی
کچھ یوں لگتا ہے ترے ساتھ ہی گزرا وہ بھی
کچھ یوں لگتا ہے ترے ساتھ ہی گزرا وہ بھی ہم نے جو وقت ترے ساتھ گزارا ہی نہیں مخمور سعیدی
رخت سفر جو پاس ہمارے نہ تھا تو کیا
رخت سفر جو پاس ہمارے نہ تھا تو کیا شوق سفر کو ساتھ لیا اور چل پڑے مخمور سعیدی
غم و نشاط کی ہر رہ گزر میں تنہا ہوں
غم و نشاط کی ہر رہ گزر میں تنہا ہوں مجھے خبر ہے میں اپنے سفر میں تنہا ہوں مخمور سعیدی
یہ اپنے دل کی لگی کو بجھانے آتے ہیں
یہ اپنے دل کی لگی کو بجھانے آتے ہیں پرائی آگ میں جلتے نہیں ہیں پروانے مخمور سعیدی
دل پہ اک غم کی گھٹا چھائی ہوئی تھی کب سے
دل پہ اک غم کی گھٹا چھائی ہوئی تھی کب سے آج ان سے جو ملے ٹوٹ کے برسات ہوئی مخمور سعیدی
زباں پہ شکر و شکایت کے سو فسانے ہیں
زباں پہ شکر و شکایت کے سو فسانے ہیں مگر جو دل پہ گزرتی ہے کیا کہا جائے مخمور سعیدی
ان سے امید ملاقات کے بعد اے مخمورؔ
ان سے امید ملاقات کے بعد اے مخمورؔ مدتوں تک نہ خود اپنے سے ملاقات ہوئی مخمور سعیدی
Doha
کون مسافر کر سکا منزل کا دیدار
کون مسافر کر سکا منزل کا دیدار پلک جھپکتے کھو گئے راہوں کے آثار مخمور سعیدی
صاف بتا دے جو تو نے دیکھا ہے دن رات
صاف بتا دے جو تو نے دیکھا ہے دن رات دنیا کے ڈر سے نہ رکھ دل میں دل کی بات مخمور سعیدی
کچھ کہنے تک سوچ لے اے بد گو انسان
کچھ کہنے تک سوچ لے اے بد گو انسان سنتے ہیں دیواروں کے بھی ہوتے ہیں کان مخمور سعیدی
روش روش پر باغ ہیں کانٹے کلیاں پھول
روش روش پر باغ ہیں کانٹے کلیاں پھول میں نے کانٹے چن لیے ہوئی یہ کیسی بھول مخمور سعیدی
ڈوبنے والوں پر کسے دنیا نے آوازے
ڈوبنے والوں پر کسے دنیا نے آوازے ساحل سے کرتی رہی طوفاں کے اندازے مخمور سعیدی
تنہا تو رہ جائے گا کوئی نہ ہوگا ساتھ
تنہا تو رہ جائے گا کوئی نہ ہوگا ساتھ جیسے ہی یہ لوگ ہیں پکڑ انہی کا ہاتھ مخمور سعیدی