Niaz Fatehpuri
- 1884-24 May 1966
- Nayi Ghat, Barabanki district
Introduction
ان کے کاموں میں شامل ہیں:
مذہب پر من و یزداں.
شاہوانیت، معاشرے پر.
مکتوبات، ان کے خطوط.
انتقادی، تنقید.
جمالستان اور نگارستان، مختصر کہانیاں جو کہ 1939 میں شائع ہوئی.
1913 میں شائع ہونے والا شاعر کا انجام.
1926 میں دوسرا ایڈیشن، جزبات-بھاشہ.
1932 میں گہورہ ای تمدن.
ہندی شاعری، 1936 میں.
1941 میں ترغیبات-ای-جنسیہ شہوانیت.
1943 میں مختصر کہانیاں، خسن کی عیاریاں اور دوسرے افسانے.
1946 میں جھانسی کی رانی شائع ہوئی.
مختارات-ای-نیازی 1947 میں شائع ہوئی تھی.
نقاب اٹھ جانے کے بعد 1942 میں شائع ہوئے تھے.
چند گھنٹے، حکم قدیم کی روحوں کی ساتھ اور مضامین.
مطالیعات-ای-نیاز 1947 میں شائع ہوا تھا.
تیمولات-ای-نیاز کو دوبارہ کام کیا گیا اور 1951 میں شائع کیا گیا.
1948 سے 1951 تک ان کے خطوط کی 3 جلدیں.
مذاکرات-ای-نیاز، 1932 میں ڈائری کے کچھ صفحات.
1938 میں مجموعہ استفسار و جواب.
صحابیات، 1932 میں.
وہ شہرت رکھنے والے افسانہ نگاروں میں سے تھے، جن کی اردو مختصر کہانیاں، اور نثر میں نظمیں منشی پریم چند کے برابر سمجھی جاتی ہیں. نیاز ایک نقاد اور اردو شاعر بھی تھے، اور ایک ماہر گفتگو کرنے والے جنہوں نے بنیاد پرستی کے خلاف بات کی تھی.
پاکستان ہجرت کرنے کے بعد، انہوں نے 1962 میں نگار ماہانہ جریدے کی اشاعت اور ترمیم دوبارہ سے شروع کی. یہ ابھی بھی کراچی میں فرمان فتح پوری کی سرپرستی میں شائع ہوتا ہے. نیاز نے مذہب، اردو ادب، اور ہندوستان کے معاشرتی تانے بانے کو متاثر کرنے والی بہت سی غلطیوں پر لکھا. اس نے اپنے کریڈٹ کے لئے دو درجن سے زیادہ اہم کام مرتب کیے ہیں. 24 مئی 1966 کو، ان کا انتقال پاکستان کے شہر کراچی میں ہوا.
Ghazal
جب قفس میں مجھ کو یاد آشیاں آ جائے ہے
جب قفس میں مجھ کو یاد آشیاں آ جائے ہے سامنے آنکھوں کے اک بجلی سی لہرا جائے ہے دل مرا وہ خانۂ ویراں ہے
تار کی جھنکار ہی سے بزم تھرا جائے ہے
تار کی جھنکار ہی سے بزم تھرا جائے ہے گاہے گاہے ساز ہستی یوں بھی چھیڑا جائے ہے قافلہ چھوٹے زمانہ ہو گیا لیکن ہنوز
صرف اک لرزش ہے نوک خار پر شبنم کی بوند
صرف اک لرزش ہے نوک خار پر شبنم کی بوند پھر بھی اس فرصت پر اس کی مجھ کو رشک آ جائے ہے میری تنہائی
Short Stories
محبت کی دیوی
(1) زمین نہ جانے کتنی بارآفتاب کے گرد تصدق ہو چکی ہے، معلوم نہیں چاند کتنی مرتبہ کرہ ارض کی اوٹ سے اپنی پیشانی کا
شہید آزادی
.ضرورت ہے ایک تعلیم یافتہ، سلیقہ مند، خوشرو نوجوان لڑکی کے لیے ایک شوہر کی جو تمام مردانہ خصوصیات تعلیم کے ساتھ کم از کم
دنیا کا اولین بت ساز
زرقا کی خاموش زندگی، جس کی ابتدا خود اسے بھی نہ معلوم تھی اور جو جابلقا کے سنگستان میں اس طرح گزر رہی تھی، جیسے
درس محبت
معبد زہرہ کی کنواریاں سب کی سب پاکباز رہی ہوں یا عصمت فروش۔ اس سے بحث نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دردانہ زہرہ کی
دو گھنٹے جہنم میں
صبح تک میں خود بھی اپنے آپ کو ایسا بیمار نہ سمجھتا تھا کہ وصیت کی فکر کرتا یا ان سب ناتمام کاموں کا انتظام
دو خط
اسلم اور ذاکر اپنی فطرت کے لحاظ سے بالکل ایک دوسرے کی ضد واقع ہوئے تھے، لیکن اپنے زمانۂ تعلیم میں جو اسکول اور کالج
زہرہ کا ایک پجاری
یونان کے اس عہد حسن و عشق میں، جب وہاں کا ذرہ ذرہ، خردہ مینا کا حکم رکھتا تھا، یوں تو ہمیشہ، ہر روز، محبت
Sher
سر جو گردن پر نہیں تو کیا ہتھیلی پر سہی
سر جو گردن پر نہیں تو کیا ہتھیلی پر سہی منزل عشق و جنوں سے یوں ہی گزرا جائے ہے نیاز فتح پوری
سنگ کیا ہے بس سراپا انتظار بت تراش
سنگ کیا ہے بس سراپا انتظار بت تراش زندگی کا خواب لوگو یوں بھی دیکھا جائے ہے نیاز فتح پوری
چشم تر ہے اس طرف اور اس طرف ابر بہار
چشم تر ہے اس طرف اور اس طرف ابر بہار دیکھنا ہے آج کس سے کتنا رویا جائے ہے نیاز فتح پوری
تم تو ٹھکرا کر گزر جاؤ تمہیں ٹوکے گا کون
تم تو ٹھکرا کر گزر جاؤ تمہیں ٹوکے گا کون میں پڑا ہوں راہ میں تو کیا تمہارا جائے گا نیاز فتح پوری
میں اب تو اے جنوں ترے ہاتھوں سے تنگ ہوں
میں اب تو اے جنوں ترے ہاتھوں سے تنگ ہوں لاؤں کہاں سے روز گریباں نئے نئے نیاز فتح پوری
گھڑی گھڑی نہ ادھر دیکھیے کہ دل پہ مجھے
گھڑی گھڑی نہ ادھر دیکھیے کہ دل پہ مجھے ہے اختیار پر اتنا بھی اختیار نہیں نیاز فتح پوری
نہ دنیا کا ہوں میں نہ کچھ فکر دیں کا
نہ دنیا کا ہوں میں نہ کچھ فکر دیں کا محبت نے رکھا نہ مجھ کو کہیں کا نیاز فتح پوری