Syed Zameer Jafri
- 01 January 1916-12 May 1999
- Jehlum, Punjab Province, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Syed Zameer Jafri was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
خلاصہ یہ مرے حالات کا ہے
خلاصہ یہ مرے حالات کا ہے کہ اپنا سب سفر ہی رات کا ہے اب اک رومال میرے ساتھ کا ہے جو میری والدہ کے
ہم زمانے سے فقط حسن گماں رکھتے ہیں
ہم زمانے سے فقط حسن گماں رکھتے ہیں ہم زمانے سے توقع ہی کہاں رکھتے ہیں ایک لمحہ بھی مسرت کا بہت ہوتا ہے لوگ
اپنے ظرف اپنی طلب اپنی نظر کی بات ہے
اپنے ظرف اپنی طلب اپنی نظر کی بات ہے رات ہے لیکن مرے لب پر سحر کی بات ہے آشیاں کے ساتھ پوری زندگی بدلی
درد میں لذت بہت اشکوں میں رعنائی بہت
درد میں لذت بہت اشکوں میں رعنائی بہت اے غم ہستی ہمیں دنیا پسند آئی بہت ہو نہ ہو دشت و چمن میں اک تعلق
گا رہا ہوں خامشی میں درد کے نغمات میں
گا رہا ہوں خامشی میں درد کے نغمات میں بن گیا اک ساحل ویراں کی تنہا رات میں ایک دو سجدے ذرا شہر نگاراں کی
یوں قتل عام نوع بشر کر دیا گیا
یوں قتل عام نوع بشر کر دیا گیا راسخ طبیعتوں ہی میں ڈر کر دیا گیا تاریخ سرخ رو ہے انہیں حادثات سے جن حادثوں
جنوں پہ جبر خرد جب بھی ہوشیار ہوا
جنوں پہ جبر خرد جب بھی ہوشیار ہوا نظر کے ساتھ نظارہ بھی شرم سار ہوا غم جہاں! بہت اچھا انہیں بھلا دیں گے زہ
گمرہوں کا ہم سفر رہنا بھی اچھی بات ہے
گمرہوں کا ہم سفر رہنا بھی اچھی بات ہے راستے سے بے خبر رہنا بھی اچھی بات ہے کچھ نہ کچھ ناپختگی بھی آدمی کا
ہم اگر دشت جنوں میں نہ غزل خواں ہوتے
ہم اگر دشت جنوں میں نہ غزل خواں ہوتے شہر ہوتے بھی تو آواز کے زنداں ہوتے زندگی تیرے تقاضے اگر آساں ہوتے کتنے آباد
اپنی خبر نہیں ہے بجز اس قدر مجھے
اپنی خبر نہیں ہے بجز اس قدر مجھے اک شخص تھا کہ مل نہ سکا عمر بھر مجھے شعلوں کی گفتگو میں صبا کے خرام
کپڑے اپنے گھر کے ہیں
کپڑے اپنے گھر کے ہیں دھبے دنیا بھر کے ہیں باہر کوئی چیز نہیں سارے ڈر اندر کے ہیں کیسے کیسے دکھ دیکھے کیا کیا
طوفاں نہیں گزرے کہ بیاباں نہیں گزرے
طوفاں نہیں گزرے کہ بیاباں نہیں گزرے ہم مرحلۂ زیست سے آساں نہیں گزرے کچھ ایسے مقامات بھی تھے راہ وفا میں محسوس یہ ہوتا
Nazm
عید کا میلہ
لو عید آئی لو دو پلئے میدان میں بھر بازار لگا ہر چاہت کا سامان ہوا ہر نعمت کا انبار لگا سب اجلا شہر امنڈ
بادل کا کھیل
استاد وہ بادل کا اک پارہ ہے کیا پیارا ہے تم دیکھتے ہو شاگرد بے شک بے شک ہم دیکھتے ہیں یہ بادل کا اک
عورتوں کی اسمبلی
وہ شانوں پہ زرکار آنچل اچھالے ادھر سے ادھر مست زلفوں کو ڈالے میاں اور بچے خدا کے حوالے حسیں ہاتھ میں نرم فائل سنبھالے
آدمی
تھا کبھی علم آدمی دل آدمی پیار آدمی آج کل زر آدمی قصر آدمی کار آدمی کلبلاتی بستیاں مشکل سے دو چار آدمی کتنا کم
زندگی کے دھارے
اس کسان کو دیکھو زندگی کے پتھر سے جسم ٹوٹتا ہوا گاؤں میں جس کے گھر اداس ہیں حسرتوں اور آنسوؤں کے نم کے غم
ہلا گلا
منو چنو فری زری بڑھے جاؤ پڑھے جاؤ کھیلے جاؤ کھائے جاؤ ڈال ہو کہ پات ہو صبح ہو کہ رات ہو زندگی کی بات
کرکٹ نامہ
تیز باؤلر ہم کو تو کچھ نظر نہیں آتا لوگ کہتے ہیں بال آتا ہے الاماں اس کی تیز رفتاری بال ہے یا خیال آتا
کھیر کون کھا گیا
تھالیاں بھی صاف ہیں پیالیاں بھی صاف ہیں کھیر کون کھا گیا کچھ نہیں ہے دیگچی میں تاب میں پرات میں کوئی چور کھا گیا
اک تارا باجے
اک تارا باجے چھنن چھنن جاگو جاگو ہاں سنو سنو یہ تان مگن یہ دل دھڑکن اک تارا باجے چھنن چھنن جاگو جاگو داتا نے
کبڈی کی تال پر
آؤ جوانو دھوم مچائیں ڈھول بجائیں ڈم ڈم ڈم ڈم یہ کھیل جوان جیالوں کا گھی مکھن کھانے والوں کا نر بیٹے جیوٹ ماؤں کے
Sher
جان و دل نذر ہیں لیکن نگہ لطف کی نذر
جان و دل نذر ہیں لیکن نگہ لطف کی نذر مفت بکتے ہیں قیامت بھی گراں رکھتے ہیں سید ضمیر جعفری
ہم نے کتنے دھوکے میں سب جیون کی بربادی کی
ہم نے کتنے دھوکے میں سب جیون کی بربادی کی گال پہ اک تل دیکھ کے ان کے سارے جسم سے شادی کی سید ضمیر
اب اک رومال میرے ساتھ کا ہے
اب اک رومال میرے ساتھ کا ہے جو میری والدہ کے ہاتھ کا ہے سید ضمیر جعفری
ہنس مگر ہنسنے سے پہلے سوچ لے
ہنس مگر ہنسنے سے پہلے سوچ لے یہ نہ ہو پھر عمر بھر رونا پڑے سید ضمیر جعفری
ان کا دروازہ تھا مجھ سے بھی سوا مشتاق دید
ان کا دروازہ تھا مجھ سے بھی سوا مشتاق دید میں نے باہر کھولنا چاہا تو وہ اندر کھلا سید ضمیر جعفری
جتنا بڑھتا گیا شعور ہنر
جتنا بڑھتا گیا شعور ہنر خود کو اتنا ہی بے ہنر جانا سید ضمیر جعفری
بہن کی التجا ماں کی محبت ساتھ چلتی ہے
بہن کی التجا ماں کی محبت ساتھ چلتی ہے وفائے دوستاں بہر مشقت ساتھ چلتی ہے سید ضمیر جعفری
ایک لمحہ بھی مسرت کا بہت ہوتا ہے
ایک لمحہ بھی مسرت کا بہت ہوتا ہے لوگ جینے کا سلیقہ ہی کہاں رکھتے ہیں سید ضمیر جعفری
درد میں لذت بہت اشکوں میں رعنائی بہت
درد میں لذت بہت اشکوں میں رعنائی بہت اے غم ہستی ہمیں دنیا پسند آئی بہت سید ضمیر جعفری
زاہد خودی فروش تو واعظ خدا فروش
زاہد خودی فروش تو واعظ خدا فروش دونوں بزرگ میری نظر سے گزر گئے سید ضمیر جعفری
Qita
اساس
شہر کو رونق ملے ہے گاؤں سے پیڑ کی طاقت نہ جانچو چھاؤں سے محض قد سے شخص قد آور نہیں اپنی قامت ڈھونڈھ اپنے
جبر و جہالت
یہ کاروبار جبر و جہالت نہیں قبول یہ فسطائیت کسی حالت نہیں قبول انسان کا بھی قتل ہے انصاف کا بھی قتل انصاف ماورائے عدالت
Humour/Satire
مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار میں روزے سے ہوں
مجھ سے مت کر یار کچھ گفتار میں روزے سے ہوں ہو نہ جائے تجھ سے بھی تکرار میں روزے سے ہوں ہر کسی سے
چیز ملتی ہے ظرف کی حد تک ردیف
چیز ملتی ہے ظرف کی حد تک اپنا چمچہ بڑا کرے کوئی
میری بیوی قبر میں لیٹی ہے جس ہنگام سے
میری بیوی قبر میں لیٹی ہے جس ہنگام سے وہ بھی ہے آرام سے اور میں بھی ہوں آرام سے کس طرح گزران ہوگی اب
حضرت اقبالؔ کا شاہیں تو ہم سے اڑ چکا ردیف
حضرت اقبالؔ کا شاہیں تو ہم سے اڑ چکا اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو
بد نامی کے بعد
لائق افسوس ہے پر باعث حیرت نہیں کامیابی اس کی عبرت ناک ناکامی کے بعد کتنا شاطر ہے سیاست دان اپنے ملک کا اور بھی
پرانی موٹر
عجب اک بار سا مردار پہیوں نے اٹھایا ہے اسے انساں کی بد بختی نے جانے کب بنایا ہے نہ ماڈل ہے، نہ باڈی ہے،
شوق سے لخت جگر نور نظر پیدا کرو
شوق سے لخت جگر نور نظر پیدا کرو ظالمو تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو
اک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں
اسی میں ملت بیضا سما جا کود جا بھر جا تری قسمت میں لکھا جا چکا ہے تیسرا درجہ نہ گنجائش کو دیکھ اس میں
پن کھلا ٹائی کھلی بکلس کھلا کالر کھلا
پن کھلا ٹائی کھلی بکلس کھلا کالر کھلا کھلتے کھلتے ڈیڑھ گھنٹے میں کہیں افسر کھلا آٹھ دس کی آنکھ پھوٹی آٹھ دس کا سر
شب کو دلیا دلا کرے کوئی
شب کو دلیا دلا کرے کوئی صبح کو ناشتہ کرے کوئی اس کا بھی فیصلہ کرے کوئی کس سے کتنی حیا کرے کوئی آدمی سے
تن آسانی نہیں جاتی ریاکاری نہیں جاتی
تن آسانی نہیں جاتی ریاکاری نہیں جاتی میاں برسوں میں یہ صدیوں کی بیماری نہیں جاتی جناب شیخ یوں چلتے ہیں علم و فضل کو
میرزا غالبؔ
زندگی سے بھی کب ہوئے مغلوب اپنے اسلوب پر ہی جیتے تھے ہر حوالے سے منفرد غالبؔ داڑھی رکھتے شراب پیتے تھے
Khaka
سنگاپور کا میجر حسرت
دوسری عالمگیر جنگ کے خاتمے پر جب اتحادی قابض فوجیں ملایا کے ساحل پر اتریں تو مولانا چراغ حسن حسرتؔ اس کے ہر اول دستوں
Qisse
پڑوسی کے دروازے پردستک
ضمیر جعفری جن دنوں سٹیلائٹ ٹاؤن میں رہتے تھے۔ ایک جیسے مکانوں کے نقشے کی وجہ سے ایک شام بھول کر کسی اور کے دروازے
خالد کا قلم اور ضمیر کی اردو
لاہور ایئر پورٹ پر روا نگی سے قبل سید ضمیر جعفری صاحب نے ایک دوست کا ایڈریس نوٹ کرنے کے لئے اپنی جیبیں ٹٹولیں مگر
تندرست مریض
مشہور مزاح نگار میجر ضمیر جعفری اور ان کے چند ساتھی فوجی افسر اپنا طبی معائنہ کروانے کے لئے ایک ملٹری ہاسپٹل میں شریک ہوئے