![Brij Narayan Chakbast 1 Brij Narayan Chakbast](https://iztirab.com/wp-content/uploads/2023/07/Brij-Narayan-Chakbast-927x1024.jpg)
Brij Narayan Chakbast
- 19 January 1882 - 12 February 1926
- Faizabad, North-West Provinces, British India
Introduction
“صبح-وطن” چکبست کا ایک جمع شدہ کام ہے. ان کی بہت سی نظمیں قوم پرستی کا اظہار کرتی ہیں، خاص طور پر ان کی شاعری کا مرکزی موضوع.
خاک-ای-ہند.
گلزار-ای-نسیم ایک مثنوی.
رامیان کا ایک ایک منظر ایک مسدس.
نالہ ای درد.
نالہ-ای-یاس.
کملہ ایک کھیل.
کلیات-چکبست اور مکالات-ای-چکبست شاعری اور نثر میں ان کے کاموں کا ایک تفصیلی مجموعہ ہے جو بعد میں چکبست کی سالگرہ کے موقع پر شائع ہوا تھا. 1983 میں یہ کام کالیداس گپتا “رضا” نے مرتب کیا تھا”.
“مسان” ایک ایسی فلم ہے جو 2015 میں ریلیز ہوئی تھی جس کا آغاز چکبست کی مختلف مثالوں کے ساتھ ساتھ مرزا غالب ، اکبر الہ آباد ، بشیر بدر اور دوشینٹ کمار کے کاموں کے ساتھ کیا گیا تھا. ورون گروور فلم کی دھنوں کے مصنف تھے. انہوں نے کہا کہ وہ شالو کے رول کی وضاحت کرتے ہوئے کہا جوکے شیوتہ شیٹی نے ایک ایسے شخص کی حیثیت سے ادا کیا تھا جس کا مشغلہ اردو شاعری کو پڑھنا ہے, چونکہ یہ شمالی ہندوستان میں نوجوانوں کا ایک مقبول شوق ہے، خاص طور پر جب وہ محبت میں ہوں، لیکن ہندی فلموں میں یہ خصوصیت شاذ و نادر ہی ظاہر ہوتی ہے.
Ghazal
انہیں یہ فکر ہے ہر دم نئی طرز جفا کیا ہے
انہیں یہ فکر ہے ہر دم نئی طرز جفا کیا ہے ہمیں یہ شوق ہے دیکھیں ستم کی انتہا کیا ہے گنہگاروں میں شامل ہیں
نئے جھگڑے نرالی کاوشیں ایجاد کرتے ہیں
نئے جھگڑے نرالی کاوشیں ایجاد کرتے ہیں وطن کی آبرو اہل وطن برباد کرتے ہیں ہوا میں اڑ کے سیر عالم ایجاد کرتے ہیں فرشتے
کچھ ایسا پاس غیرت اٹھ گیا اس عہد پر فن میں
کچھ ایسا پاس غیرت اٹھ گیا اس عہد پر فن میں کہ زیور ہو گیا طوق غلامی اپنی گردن میں شجر سکتے میں ہیں خاموش
نہ کوئی دوست دشمن ہو شریک درد و غم میرا
نہ کوئی دوست دشمن ہو شریک درد و غم میرا سلامت میری گردن پر رہے بار الم میرا لکھا یہ داور محشر نے میری فرد
دل کیے تسخیر بخشا فیض روحانی مجھے
دل کیے تسخیر بخشا فیض روحانی مجھے حب قومی ہو گیا نقش سلیمانی مجھے منزل عبرت ہے دنیا اہل دنیا شاد ہیں ایسی دلجمعی سے
فنا نہیں ہے محبت کے رنگ و بو کے لئے
فنا نہیں ہے محبت کے رنگ و بو کے لئے بہار عالم فانی رہے رہے نہ رہے جنون حب وطن کا مزا شباب میں ہے
درد دل پاس وفا جذبہ ایماں ہونا
درد دل پاس وفا جذبہ ایماں ہونا آدمیت ہے یہی اور یہی انساں ہونا نو گرفتار بلا طرز وفا کیا جانیں کوئی نا شاد سکھا
اگر درد محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا
اگر درد محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا نہ کچھ مرنے کا غم ہوتا نہ جینے کا مزا ہوتا بہار گل میں دیوانوں کا صحرا
ہم سوچتے ہیں رات میں تاروں کو دیکھ کر
ہم سوچتے ہیں رات میں تاروں کو دیکھ کر شمعیں زمین کی ہیں جو داغ آسماں کے ہیں جنت میں خاک بادہ پرستوں کا دل
زباں کو بند کریں یا مجھے اسیر کریں
زباں کو بند کریں یا مجھے اسیر کریں مرے خیال کو بیڑی پنہا نہیں سکتے یہ کیسی بزم ہے اور کیسے اس کے ساقی ہیں
فنا کا ہوش آنا زندگی کا درد سر جانا
فنا کا ہوش آنا زندگی کا درد سر جانا اجل کیا ہے خمار بادۂ ہستی اتر جانا عزیزان وطن کو غنچہ و برگ و ثمر
کبھی تھا ناز زمانہ کو اپنے ہند پہ بھی
کبھی تھا ناز زمانہ کو اپنے ہند پہ بھی پر اب عروج وہ علم و کمال و فن میں نہیں رگوں میں خوں ہے وہی
Nazm
خاک ہند
اے خاک ہند تیری عظمت میں کیا گماں ہے دریائے فیض قدرت تیرے لیے رواں ہے تیرے جبیں سے نور حسن ازل عیاں ہے اللہ
درد دل
درد ہے دل کے لئے اور دل انساں کے لئے تازگی برگ و ثمر کی چمنستاں کے لئے ساز آہنگ جنوں تار رگ جاں کے
وطن کا راگ
زمین ہند کی رتبہ میں عرش اعلیٰ ہے یہ ہوم رول کی امید کا اجالا ہے مسز بسنٹ نے اس آرزو کو پالا ہے فقیر
مرثیہ بال گنگا دھر تلک
موت نے رات کے پردے میں کیا کیسا وار روشنئ صبح وطن کی ہے کہ ماتم کا غبار معرکہ سرد ہے سویا ہے وطن کا
آصف الدولہ کا امام باڑہ لکھنو
آصف الدولہ مرحوم کی تعمیر کہن جس کی صنعت کا نہیں صفحۂ ہستی پہ جواب دیکھ سیاح اسے رات کے سناٹے میں منہ سے اپنے
وید
فیض قدرت سے جو تقدیر کھلی عالم کی ساحل ہند پہ وحدت کی تجلی چمکی مٹ گئی جہل کی شب صبح کا تارہ چمکا آریہ
رامائن کا ایک سین
رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام راہ وفا کی منزل اول ہوئی تمام منظور تھا جو ماں کی زیارت کا انتظام
ہمارا وطن دل سے پیارہ وطن
یہ ہندوستاں ہے ہمارا وطن محبت کی آنکھوں کا تارا وطن ہمارا وطن دل سے پیارا وطن وہ اس کے درختوں کے تیاریاں وہ پھل
حب قومی
حب قومی کا زباں پر ان دنوں افسانہ ہے بادۂ الفت سے پر دل کا مرے پیمانہ ہے جس جگہ دیکھو محبت کا وہاں افسانہ
برسات
ہے دلاتی یاد مے نوشی فضا برسات کی دل بڑھا جاتی ہے آ آ کر گھٹا برسات کی بندھ گئی ہے رحمت حق سے ہوا
مرثیہ گوپال کرشن گوکھلے
لرز رہا تھا وطن جس خیال کے ڈر سے وہ آج خون رلاتا ہے دیدۂ تر سے صدا یہ آتی ہے پھل پھول اور پتھر
برسات
بندھ گئی ہے رحمت حق سے ہوا برسات کی نام کھلنے کا نہیں لیتی گھٹا برسات کی اگ رہا ہے ہر طرف سبزہ در و
Sher
جو تو کہے تو شکایت کا ذکر کم کر دیں
جو تو کہے تو شکایت کا ذکر کم کر دیں مگر یقیں ترے وعدوں پہ لا نہیں سکتے برج نرائن چکبست
اس کو ناقدری عالم کا صلہ کہتے ہیں
اس کو ناقدری عالم کا صلہ کہتے ہیں مر چکے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا برج نرائن چکبست
یہ کیسی بزم ہے اور کیسے اس کے ساقی ہیں
یہ کیسی بزم ہے اور کیسے اس کے ساقی ہیں شراب ہاتھ میں ہے اور پلا نہیں سکتے برج نرائن چکبست
چراغ قوم کا روشن ہے عرش پر دل کے
چراغ قوم کا روشن ہے عرش پر دل کے اسے ہوا کے فرشتے بجھا نہیں سکتے برج نرائن چکبست
لکھنؤ میں پھر ہوئی آراستہ بزم سخن
لکھنؤ میں پھر ہوئی آراستہ بزم سخن بعد مدت پھر ہوا ذوق غزل خوانی مجھے برج نرائن چکبست
درد دل پاس وفا جذبہ ایماں ہونا
درد دل پاس وفا جذبہ ایماں ہونا آدمیت ہے یہی اور یہی انساں ہونا برج نرائن چکبست
نیا بسمل ہوں میں واقف نہیں رسم شہادت سے
نیا بسمل ہوں میں واقف نہیں رسم شہادت سے بتا دے تو ہی اے ظالم تڑپنے کی ادا کیا ہے برج نرائن چکبست
گنہگاروں میں شامل ہیں گناہوں سے نہیں واقف
گنہگاروں میں شامل ہیں گناہوں سے نہیں واقف سزا کو جانتے ہیں ہم خدا جانے خطا کیا ہے برج نرائن چکبست
اگر درد محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا
اگر درد محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا نہ کچھ مرنے کا غم ہوتا نہ جینے کا مزا ہوتا برج نرائن چکبست
اک سلسلہ ہوس کا ہے انساں کی زندگی
اک سلسلہ ہوس کا ہے انساں کی زندگی اس ایک مشت خاک کو غم دو جہاں کے ہیں برج نرائن چکبست
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا برج نرائن چکبست
ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا
ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں برج نرائن چکبست