Fareed Parbati
- 4 August 1961 - 14 December 2011
- Jammu and Kashmir, India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
کسی پہ کرنا نہیں اعتبار میری طرح
کسی پہ کرنا نہیں اعتبار میری طرح لٹا کے بیٹھوگے صبر و قرار میری طرح ابھی تو ہوتی ہیں سرگوشیاں پس دیوار ابھی نہ کرنا
ترے بغیر ہی جی لوں ارادہ تھا پہلے
ترے بغیر ہی جی لوں ارادہ تھا پہلے ذرا یہ سوچ کہ میں کتنا سادہ تھا پہلے اسی زمیں نے دیے جور کے جلائے بہت
اور کچھ اس کے سوا اہل نظر جانتے ہیں
اور کچھ اس کے سوا اہل نظر جانتے ہیں پگڑیاں اپنی بچانے کا ہنر جانتے ہیں اک ستارے کو ضیا بار دکھانے کے لئے وہ
تمنا اپنی ان پر آشکارا کر رہا ہوں میں
تمنا اپنی ان پر آشکارا کر رہا ہوں میں جو پہلے کر چکا ہوں اب دوبارا کر رہا ہوں میں شکست آرزو عرض تمنا شوق
اک جلوہ مہتاب ہے تشہیر میں شاید
اک جلوہ مہتاب ہے تشہیر میں شاید گم ہو گیا ہوں اپنی ہی تعبیر میں شاید اٹھتا ہے عجب درد مسلسل مرے دل میں ہے
سکندر ہوں تلاش آب حیواں روز کرتا ہوں
سکندر ہوں تلاش آب حیواں روز کرتا ہوں ابھی نقش و نگار زندگی میں رنگ بھرتا ہوں لگا کر سب لہو آخر ہوئے داخل شہیدوں
کر رہے ہیں آپ اپنی جستجو میں اور ہوا
کر رہے ہیں آپ اپنی جستجو میں اور ہوا ایک جا ہو جائیں گے شاید کبھو میں اور ہوا آئے گی فرصت میسر دونوں کو
شوق خوابیدہ وہ بیدار بھی کر دیتا ہے
شوق خوابیدہ وہ بیدار بھی کر دیتا ہے ہوس زیست سے سرشار بھی کر دیتا ہے حسن بے داغ کی بس ایک جھلک دکھلا کر
رگ و پے میں سرایت کر گیا وہ
رگ و پے میں سرایت کر گیا وہ مجھی کو مجھ سے رخصت کر گیا وہ نہ ٹھہرا کوئی موسم وصل جاں کا متعین راہ
خواب ہیں سارے نئے آنکھ پرانی میری
خواب ہیں سارے نئے آنکھ پرانی میری ہے تضادات سے بھرپور کہانی میری تجھ سے میں کہتا نہ تھا اندھی ہوا سے بچنا سن کے
ہر خواب یاد رکھنے کا پیدا سبب کریں
ہر خواب یاد رکھنے کا پیدا سبب کریں جو آج تک نہ کر سکے وہ کام اب کریں ہونے لگا یہاں پہ بلاؤں کا پھر
ہر گھنے سائے کو بے نام و نشاں کرتا ہوا
ہر گھنے سائے کو بے نام و نشاں کرتا ہوا وقت گزرا خواب میرے رائیگاں کرتا ہوا کون آتا ہے مری راتوں کو کرنے معتبر
Sher
بگولہ بن کے اڑا خواہشوں کے صحرا میں ٹھہر گیا تو فقط تھا غبار میری طرح فرید پربتی
تری جھولی میں ستارے یہ نہیں گرنے کے ہر طلب گار کا وہ طرز نظر جانتے ہیں فرید پربتی
یقیناً موت کے ہر عکس پر وہ خاک ڈالے گا دعا سے جس کی میں اب تک نہ جیتا ہوں نہ مرتا ہوں فرید پربتی
دن کا ہر زخم میں راتوں کو گنا کرتا ہوں دن ہے بے کیف مرا رات سہانی میری فرید پربتی
اسی مکاں میں گھٹن ہو رہی ہے اب محسوس یہی مکان بہت ہی کشادہ تھا پہلے فرید پربتی
سر شب ہی میں اکثر جل بجھا ہوں ہر اک خواہش کو لت پت کر گیا وہ فرید پربتی
غرض اس چیز سے مجھ کو نہیں میری نہ جو ہوگی یہ باعث ہے کہ دنیا سے کناراکر رہا ہوں میں فرید پربتی
اب حلقہ بھی پڑتا نہیں جس کا کبھی ڈھیلا الجھا ہوا ہوں اک اسی زنجیر میں شاید فرید پربتی
ایک سا رہتا کہاں ہے میرا اور اس کا مزاج ہیں ملائم اور کبھی ہیں تند خود میں اور ہوا فرید پربتی
سب جیت پر مناتے ہیں اکثر یہاں پہ جشن ہم کیوں بپا نہ ہار پہ جشن طرب کریں فرید پربتی
ہو رہی ہے اس طرح تجدید ہر اک خواب کی جو بچا تھا آنکھ میں عکس کہن زد پر رہا فرید پربتی
کبھی کرتا ہے نچھاور مری راہوں میں پھول وقت مل جائے تو پر خار بھی کر دیتا ہے فرید پربتی
Rubai
جیتا ہوں کہاں تک میں جیتا ہی مروں
جیتا ہوں کہاں تک میں جیتا ہی مروں قدرت کا تری کیوں میں نہ دم بھروں لے جاؤں میں کس کے پاس اپنا دکھڑا امید
اکثر میں یہاں مثل سمندر آیا
اکثر میں یہاں مثل سمندر آیا ہاں دائرۂ عقل سے باہر آیا لوہے کے چنے چبانا ہے عشق فریدؔ جو کر نہ سکا کوئی وہ
پھیلی ہے عجب آگ تجھے اس سے کیا
پھیلی ہے عجب آگ تجھے اس سے کیا ساون ہے یا ماگھ تجھے اس سے کیا جلتا ہے کسی آگ میں تن من میرا دیپک
روشن کبھی ہو جائیں گے دن رات مرے
روشن کبھی ہو جائیں گے دن رات مرے بس ایک وہی جانے ہے جذبات مرے مجھ کو تو فقط اس کے کرم پر ہے نظر
تسکین دل اور روح کا آرام پلا
تسکین دل اور روح کا آرام پلا کم ہوگی ذرا سخت مے ایام پلا رگ رگ میں کھنچی جاتی ہے تشنہ لبی ساغر کی قسم
ہونٹوں پہ دعا آئی مگر آیا نہ تو
ہونٹوں پہ دعا آئی مگر آیا نہ تو پھر باد صبا آئی مگر آیا نہ تو سوندھی سوندھی مہک سے مہکا ماحول ساون کی گھٹا
خاشاک وجود ایک بھنور میں رہتا
خاشاک وجود ایک بھنور میں رہتا اے بے خبری اپنی خبر میں رہتا سانسوں نے نہیں چھوڑی وظیفہ خوانی مصروف میں کیا کار دگر میں
خانوں میں کئی خود کو بٹ کر آیا
خانوں میں کئی خود کو بٹ کر آیا اے حب وطن تجھ سے بھی کٹ کر آیا اب اپنے وطن میں بھی نہیں جی لگتا
قائم رکھیں آسودہ مکاں ہم دونوں
قائم رکھیں آسودہ مکاں ہم دونوں اک دوجے پر ہوں مہرباں ہم دونوں چلتا رہے ہمراہ شراب اور کباب اے کاش رہیں یوں ہی جواں
جب حشر میں ہوں پیش عمل کے دفتر
جب حشر میں ہوں پیش عمل کے دفتر لرزیدہ ترے قہر سے ہوں جن و بشر پروانہ ترے عشق کا ہوگا مرے ہاتھ کہہ دوں
ہر مسئلے کی تہہ میں اترنا نہیں ٹھیک
ہر مسئلے کی تہہ میں اترنا نہیں ٹھیک اس زندگی کے ہاتھوں مرنا نہیں ٹھیک دنیا میں بہت کر کے یہ دیکھا میں نے اس
اے شاہ جنوں تیرے عرفاں کو سلام
اے شاہ جنوں تیرے عرفاں کو سلام اے چاک جگر اس تن عریاں کو سلام حشمت کا طلب گار نہ تھا جاہ پسند غارتگریٔ عیش