Khwaja Haidar Ali Aatish
- 1764 –1846
- Lucknow, India
Introduction
Ghazal
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا کیا کیا الجھتا ہے تری زلفوں کے تار
یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو بہ رو کرتے
یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو بہ رو کرتے ہم اور بلبل بیتاب گفتگو کرتے پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا زبان غیر
اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے
اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے اسی اللہ نے مجھ کو بھی محبت دی ہے تیغ بے آب ہے نے بازوئے
دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا بدلتا ہے رنگ آسماں
نا فہمی اپنی پردہ ہے دیدار کے لیے
نا فہمی اپنی پردہ ہے دیدار کے لیے ورنہ کوئی نقاب نہیں یار کے لیے نور تجلی ہے ترے رخسار کے لیے آنکھیں مری کلیم
شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا
شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا بغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا مبارک شب قدر سے بھی وہ شب تھی سحر تک مہ
فریب حسن سے گبر و مسلماں کا چلن بگڑا
فریب حسن سے گبر و مسلماں کا چلن بگڑا خدا کی یاد بھولا شیخ بت سے برہمن بگڑا قبائے گل کو پھاڑا جب مرا گل
ہوائے دور مے خوش گوار راہ میں ہے
ہوائے دور مے خوش گوار راہ میں ہے خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے گدا نواز کوئی شہسوار راہ میں ہے بلند
مگر اس کو فریب نرگس مستانہ آتا ہے
مگر اس کو فریب نرگس مستانہ آتا ہے الٹتی ہیں صفیں گردش میں جب پیمانہ آتا ہے نہایت دل کو ہے مرغوب بوسہ خال مشکیں
آئینہ سینہ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا
آئینہ سینہ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا چہرہ شاہد مقصود عیاں ہے کہ جو تھا عشق گل میں وہی بلبل کا فغاں ہے کہ
کوئی عشق میں مجھ سے افزوں نہ نکلا
کوئی عشق میں مجھ سے افزوں نہ نکلا کبھی سامنے ہو کے مجنوں نہ نکلا بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا
وحشی تھے بوئے گل کی طرح اس جہاں میں ہم
وحشی تھے بوئے گل کی طرح اس جہاں میں ہم نکلے تو پھر کے آئے نہ اپنے مکاں میں ہم ساکن ہیں جوش اشک سے
Sher
عجب تری ہے اے محبوب صورت
عجب تری ہے اے محبُوب صورت نظر سے گر گئے سب خُوب صورت خواجہ حیدر علی آتش
سن تو سہی جہاں میں ہے ترا فسانہ کیا
سن تُو سہی جہاں میں ہے ترا فسانہ کیا کہتی ہے تُجھ کو خلق خُدا غائبانہ کیا خواجہ حیدر علی آتش
بت خانہ توڑ ڈالیے مسجد کو ڈھائیے
بُت خانہ توڑ ڈالیے مسجد کو ڈھائیے دِل کو نہ توڑیئے یہ خُدا کا مقام ہے خواجہ حیدر علی آتش
نہ پاک ہوگا کبھی حسن و عشق کا جھگڑا
نہ پاک ہوگا کبِھی حُسن و عِشق کا جھگڑا وُہ قصہ ہے یہ کے جس کا کوئی گواہ نہیں خواجہ حیدر علی آتش
اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے
اے صنم جس نے تُجھے چاند سی صورت دی ہے اُسی اللہ نے مُجھ کو بھی محبت دی ہے خواجہ حیدر علی آتش
آتشؔ خدا نے چاہا تو دریائے عشق میں
آتشؔ خُدا نے چاہا تو دریائے عشق میں کودے جُو اب کی ہم تُو ورے سے پرے ہوئے خواجہ حیدر علی آتش
زندے وہی ہیں جو کے ہیں تم پر میرے ہوے
زندے وہی ہیں جُو کے ہیں تم پر میرے ہوے باقی جُو ہیں سُو قبر میں مردے بھرے ہوئے خواجہ حیدر علی آتش
میری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
میری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستُجو کرتے خواجہ حیدر علی آتش
جو اعلی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں
جُو اعلی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کہ مِلتے ہیں صراحی سرنگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ خواجہ حیدر علی آتش
فصل بہار آئی پیو صوفیو شراب
فصل بہار آئی پُیو صوفیو شراب بس ہو چکی نماز مصلیٰ اُٹھائیے خواجہ حیدر علی آتش
دوستوں سے اس قدر صدمے اٹھائے جان پر
دُوستوں سے اس قدر صدمے اُٹھائے جان پر دِل سے دُشمن کی عداوت کا گلہ جاتا رہا خواجہ حیدر علی آتش
یہ آرزو تھی تجھے گل کہ روبرو کرتے
یہ آرُزو تھی تّجھے گُل کہ رُوبرو کرتے ہم اُور بُلبُل بے تاب گفتگو کرتے خواجہ حیدر علی آتش