Sahir Ludhianvi
- 8 March 1921-25 October 1980
- Ludhiana, Punjab, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Sahir Ludhianvi was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے
تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم
تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم مایوسئ مآل محبت نہ پوچھیے اپنوں سے
یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا
یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا اس رات کی تقدیر سنور جائے تو اچھا جس طرح سے تھوڑی سی ترے ساتھ کٹی
میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا
میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا بربادیوں کا جشن مناتا
ہر طرح کے جذبات کا اعلان ہیں آنکھیں
ہر طرح کے جذبات کا اعلان ہیں آنکھیں شبنم کبھی شعلہ کبھی طوفان ہیں آنکھیں آنکھوں سے بڑی کوئی ترازو نہیں ہوتی تلتا ہے بشر
چہرے پہ خوشی چھا جاتی ہے آنکھوں میں سرور آ جاتا ہے
چہرے پہ خوشی چھا جاتی ہے آنکھوں میں سرور آ جاتا ہے جب تم مجھے اپنا کہتے ہو اپنے پہ غرور آ جاتا ہے تم
تم اپنا رنج و غم اپنی پریشانی مجھے دے دو
تم اپنا رنج و غم اپنی پریشانی مجھے دے دو تمہیں غم کی قسم اس دل کی ویرانی مجھے دے دو یہ مانا میں کسی
اپنا دل پیش کروں اپنی وفا پیش کروں
اپنا دل پیش کروں اپنی وفا پیش کروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا تجھے کیا پیش کروں تیرے ملنے کی خوشی میں کوئی نغمہ چھیڑوں
ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی
ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی ہوتی ہے دلبروں کی عنایت کبھی کبھی شرما کے منہ نہ پھیر نظر کے سوال پر لاتی ہے
دور رہ کر نہ کرو بات قریب آ جاؤ
دور رہ کر نہ کرو بات قریب آ جاؤ یاد رہ جائے گی یہ رات قریب آ جاؤ ایک مدت سے تمنا تھی تمہیں چھونے
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے اے روح عصر جاگ کہاں سو رہی ہے تو آواز
محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے
محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے زمانے اب تو خوش ہو زہر یہ بھی پی لیا میں نے ابھی زندہ ہوں
Nazm
خوبصورت موڑ
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی نہ تم میری طرف دیکھو
تاج محل
تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی تجھ کو اس وادیٔ رنگیں سے عقیدت ہی سہی میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
کبھی کبھی
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاؤں میں گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی یہ
میں پل دو پل کا شاعر ہوں
میں پل دو پل کا شاعر ہوں پل دو پل مری کہانی ہے پل دو پل میری ہستی ہے پل دو پل مری جوانی ہے
عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا
عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا تلتی ہے کہیں دیناروں
متاع غیر
میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی تیرے خوابوں میں کہیں میرا گزر ہے کہ نہیں پوچھ کر اپنی نگاہوں سے بتا دے مجھ کو
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا یہ دنیا اگر
وہ صبح کبھی تو آئے گی
۱ وہ صبح کبھی تو آئے گی ان کالی صدیوں کے سر سے جب رات کا آنچل ڈھلکے گا جب دکھ کے بادل پگھلیں گے
لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں
لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں روح بھی ہوتی ہے اس میں یہ کہاں سوچتے ہیں روح کیا ہوتی ہے اس سے انہیں
مگر ظلم کے خلاف
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے
خون پھر خون ہے
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا خاک صحرا پہ جمے یا
ہراس
تیرے ہونٹوں پہ تبسم کی وہ ہلکی سی لکیر میرے تخئیل میں رہ رہ کے جھلک اٹھتی ہے یوں اچانک ترے عارض کا خیال آتا
Sher
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا ساحر لدھیانوی
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں ساحر لدھیانوی
ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں
ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں ساحر لدھیانوی
ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو
ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا ساحر لدھیانوی
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے ساحر لدھیانوی
غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں
غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا ساحر لدھیانوی
تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم
تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم ساحر لدھیانوی
لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم ساحر لدھیانوی
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا ساحر لدھیانوی
کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست
کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا ساحر لدھیانوی
اپنی تباہیوں کا مجھے کوئی غم نہیں
اپنی تباہیوں کا مجھے کوئی غم نہیں تم نے کسی کے ساتھ محبت نبھا تو دی ساحر لدھیانوی
اس طرح زندگی نے دیا ہے ہمارا ساتھ
اس طرح زندگی نے دیا ہے ہمارا ساتھ جیسے کوئی نباہ رہا ہو رقیب سے ساحر لدھیانوی
Qita
نہ منہ چھپا کے جئے ہم نہ سر جھکا کے جئے
نہ منہ چھپا کے جئے ہم نہ سر جھکا کے جئے ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جئے اب ایک رات اگر کم
تپتے دل پر یوں گرتی ہے
تپتے دل پر یوں گرتی ہے تیری نظر سے پیار کی شبنم جلتے ہوئے جنگل پر جیسے برکھا برسے رک رک تھم تھم ساحر لدھیانوی
جہاں جہاں تری نظروں کی اوس ٹپکی ہے
جہاں جہاں تری نظروں کی اوس ٹپکی ہے وہاں وہاں سے ابھی تک غبار اٹھتا ہے جہاں جہاں ترے جلووں کے پھول بکھرے تھے وہاں
وجہ بے رنگیٔ گل زار کہوں تو کیا ہو
وجہ بے رنگیٔ گل زار کہوں تو کیا ہو کون ہے کتنا گنہ گار کہوں تو کیا ہو تم نے جو بات سر بزم نہ
Geet
تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو
تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو میں یوں ہی مست نغمے لٹاتا رہوں تم مجھے دیکھ کر مسکراتی رہو میں تمہیں دیکھ کر گیت
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کو پیار سے پیار ملا
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کو پیار سے پیار ملا ہم نے تو جب کلیاں مانگیں کانٹوں کا ہار ملا خوشیوں کی منزل ڈھونڈی
زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات
زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات ایک انجان حسینہ سے ملاقات کی رات ہائے وہ ریشمیں زلفوں سے برستا پانی پھول سے
میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے اجنبی سی ہو مگر غیر نہیں لگتی ہو وہم سے بھی جو ہو نازک وہ یقیں
بھول سکتا ہے بھلا کون یہ پیاری آنکھیں
بھول سکتا ہے بھلا کون یہ پیاری آنکھیں رنگ میں ڈوبی ہوئی نیند سے بھاری آنکھیں مری ہر سوچ نے ہر سانس نے چاہا ہے
بابل کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو سکھی سنسار ملے
بابل کی دعائیں لیتی جا جا تجھ کو سکھی سنسار ملے میکے کی کبھی نہ یاد آئے سسرال میں اتنا پیار ملے نازوں سے تجھے
مجھے گلے سے لگا لو بہت اداس ہوں میں
مجھے گلے سے لگا لو بہت اداس ہوں میں غم جہاں سے چھڑا لو بہت اداس ہوں میں یہ انتظار کا دکھ اب سہا نہیں
ہم انتظار کریں گے ترا قیامت تک
ہم انتظار کریں گے ترا قیامت تک خدا کرے کہ قیامت ہو اور تو آئے یہ انتظار بھی اک امتحان ہوتا ہے اسی سے عشق
غصے میں جو نکھرا ہے اس حسن کا کیا کہنا
غصے میں جو نکھرا ہے اس حسن کا کیا کہنا کچھ دیر ابھی ہم سے تم یوں ہی خفا رہنا اس حسن کے شعلے کی
مطلب نکل گیا ہے تو پہچانتے نہیں
مطلب نکل گیا ہے تو پہچانتے نہیں یوں جا رہے ہیں جیسے ہمیں جانتے نہیں اپنی غرض تھی جب تو لپٹنا قبول تھا بانہوں کے
جسے تو قبول کر لے وہ ادا کہاں سے لاؤں
جسے تو قبول کر لے وہ ادا کہاں سے لاؤں ترے دل کو جو لبھائے وہ صدا کہاں سے لاؤں میں وہ پھول ہوں کہ
اب وہ کرم کریں کہ ستم میں نشے میں ہوں
اب وہ کرم کریں کہ ستم میں نشے میں ہوں مجھ کو نہ کوئی ہوش نہ غم میں نشے میں ہوں سینے سے بوجھ ان
Lori
لوری
رات آ گئی چمن کے نظارے بھی سو گئے ندیا کو نیند آ گئی دھارے بھی سو گئے نیلے گگن کے راج دلارے بھی سو
Qisse
پدم شری کی ذلت
ساحر لدھیانوی نے جاں نثار اختر سے کہا، ’’یار جاں نثار! اب تم کو ’’پدم شری‘‘ خطاب مل جانا چاہئے۔‘‘ جاں نثار نے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
کنواری انٹلکچول کی تلاش
ساحر لدھیانوی کے کسی دوست نے اس سے کہا ’’یار ساحر! اب تو تمہاری زندگی ہر اعتبار سے آسودہ ہے۔ اب تو تمہیں شادی کرلینی
ترقی پسند ادیب کا جنازہ
مجروح سلطانپوری نے ساحر لدھیانوی کی کسی بات پر برہم ہوتے ہوئے کہا یاد رکھو ساحر! جب تم مرجاؤ گے تو اردو کا کوئی ترقی