Fahmida Riaz
- 28 July 1946-21 November 2018
- Meerut, India
Introduction
Ghazal
کبھی دھنک سی اترتی تھی ان نگاہوں میں
کبھی دھنک سی اترتی تھی ان نگاہوں میں وہ شوخ رنگ بھی دھیمے پڑے ہواؤں میں میں تیز گام چلی جا رہی تھی اس کی
جو مجھ میں چھپا میرا گلا گھونٹ رہا ہے
جو مجھ میں چھپا میرا گلا گھونٹ رہا ہے یا وہ کوئی ابلیس ہے یا میرا خدا ہے جب سر میں نہیں عشق تو چہرے
پتھر سے وصال مانگتی ہوں
پتھر سے وصال مانگتی ہوں میں آدمیوں سے کٹ گئی ہوں شاید پاؤں سراغ الفت مٹھی میں خاک بھر رہی ہوں ہر لمس ہے جب
یہ پیرہن جو مری روح کا اتر نہ سکا
یہ پیرہن جو مری روح کا اتر نہ سکا تو نخ بہ نخ کہیں پیوست ریشہ دل تھا مجھے مآل سفر کا ملال کیوں کر
مدت سے یہ عالم ہے دل کا ہنستا بھی نہیں روتا بھی نہیں
مدت سے یہ عالم ہے دل کا ہنستا بھی نہیں روتا بھی نہیں ماضی بھی کبھی دل میں نہ چبھا آئندہ کا سوچا بھی نہیں
چار سو ہے بڑی وحشت کا سماں
چار سو ہے بڑی وحشت کا سماں کسی آسیب کا سایہ ہے یہاں کوئی آواز سی ہے مرثیہ خواں شہر کا شہر بنا گورستاں ایک
یہ کس کے آنسوؤں نے اس نقش کو مٹایا
یہ کس کے آنسوؤں نے اس نقش کو مٹایا جو میرے لوح دل پر تو نے کبھی بنایا تھا دل جب اس پہ مائل تھا
Nazm
تم بالکل ہم جیسے نکلے
تم بالکل ہم جیسے نکلے اب تک کہاں چھپے تھے بھائی وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن جس میں ہم نے صدی گنوائی آخر پہنچی دوار
بیٹھا ہے میرے سامنے وہ
بیٹھا ہے میرے سامنے وہ جانے کسی سوچ میں پڑا ہے اچھی آنکھیں ملی ہیں اس کو وحشت کرنا بھی آ گیا ہے بچھ جاؤں
اب سو جاؤ
اب سو جاؤ اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو تم چاند سے ماتھے والے ہو اور اچھی قسمت رکھتے ہو بچے کی
انقلابی عورت
رن بھومی میں لڑتے لڑتے میں نے کتنے سال اک دن جل میں چھایا دیکھی چٹے ہو گئے بال پاپڑ جیسی ہوئیں ہڈیاں جلنے لگے
نظم
کچھ لوگ تمہیں سمجھائیں گے وہ تم کو خوف دلائیں گے جو ہے وہ بھی کھو سکتا ہے اس راہ میں رہزن ہیں اتنے کچھ
پتھر کی زبان
اسی اکیلے پہاڑ پر تو مجھے ملا تھا یہی بلندی ہے وصل تیرا یہی ہے پتھر مری وفا کا اجاڑ چٹیل اداس ویراں مگر میں
زبانوں کا بوسہ
!زبانوں کے رس میں یہ کیسی مہک ہے یہ بوسہ کہ جس سے محبت کی صہبا کی اڑتی ہے خوشبو یہ بد مست خوشبو جو
ایک رات کی کہانی
بڑی سہانی سی رات تھی وہ ہوا میں انجانی کھوئی کھوئی مہک رچی تھی بہار کی خوش گوار حدت سے رات گلنار ہو رہی تھی
چادر اور چار دیواری
حضور میں اس سیاہ چادر کا کیا کروں گی یہ آپ کیوں مجھ کو بخشتے ہیں بصد عنایت نہ سوگ میں ہوں کہ اس کو
کب تک
کب تک مجھ سے پیار کرو گے کب تک؟ جب تک میرے رحم سے بچے کی تخلیق کا خون بہے گا جب تک میرا رنگ
ایک عورت کی ہنسی
پتھریلے کہسار کے گاتے چشموں میں گونج رہی ہے ایک عورت کی نرم ہنسی دولت طاقت اور شہرت سب کچھ بھی نہیں اس کے بدن
ابد
یہ کیسی لذت سے جسم شل ہو رہا ہے میرا یہ کیا مزا ہے کہ جس سے ہے عضو عضو بوجھل یہ کیف کیا ہے
Sher
مری بے بسی مجھ پہ ظاہر ہے لیکن
مری بے بسی مجھ پہ ظاہر ہے لیکن .تمہاری تمنا تمہاری تمنا فہمیدہ ریاض
کس سے اب آرزوئے وصل کریں
کس سے اب آرزوئے وصل کریں .اس خرابے میں کوئی مرد کہاں فہمیدہ ریاض
چلتے چلتے کچھ تھم جانا پھر بوجھل قدموں سے چلنا
چلتے چلتے کچھ تھم جانا پھر بوجھل قدموں سے چلنا .یہ کیسی کسک سی باقی ہے جب پاؤں میں وہ کانٹا بھی نہیں فہمیدہ ریاض
Short Stories
فعل متعدی
ٹھیک دس بج کر تیرہ منٹ پر میں نے یہ آواز سنی۔ ”تو اے عورت! اب کیا ہونا چاہیے اور اس کے لیے کیا کرنا
طیرا ابابیل
نئے ہفتے کا پہلا دن سب سے مشکل تھا۔ دفتر میں چھ افراد پر مشتمل ایک پوری ٹیم اس کی منتظر تھی۔ نئی ڈکشنری کا
دفتر میں ایک دن
فدوی کی گذارش ہے کہ بوجوہ رمضان المبارک از بتاریخ رمضان بمطابق 12 فروری تا 27 رمضان المبارک قمری ہجری بمطابق تاریخ فلاں عیسوی فدوی