Mustafa Zaidi
- 10 October 1930-12 October 1970
- Allahabad, United Provinces, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ ہم اس کے پاس جاتے ہیں مگر آہستہ آہستہ ابھی تاروں سے کھیلو چاند کی کرنوں
کبھی جھڑکی سے کبھی پیار سے سمجھاتے رہے
کبھی جھڑکی سے کبھی پیار سے سمجھاتے رہے ہم گئی رات پہ دل کو لیے بہلاتے رہے اپنے اخلاق کی شہرت نے عجب دن دکھلائے
آندھی چلی تو نقش کف پا نہیں ملا
آندھی چلی تو نقش کف پا نہیں ملا دل جس سے مل گیا وہ دوبارا نہیں ملا ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہے
کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے
کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے غم دل مرے رفیقو غم رائگاں نہیں ہے کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی رازداں نہیں
ہر اک نے کہا کیوں تجھے آرام نہ آیا
ہر اک نے کہا کیوں تجھے آرام نہ آیا سنتے رہے ہم لب پہ ترا نام نہ آیا دیوانے کو تکتی ہیں ترے شہر کی
یوں تو وہ ہر کسی سے ملتی ہے
یوں تو وہ ہر کسی سے ملتی ہے ہم سے اپنی خوشی سے ملتی ہے سیج مہکی بدن سے شرما کر یہ ادا بھی اسی
درد دل بھی غم دوراں کے برابر سے اٹھا
درد دل بھی غم دوراں کے برابر سے اٹھا آگ صحرا میں لگی اور دھواں گھر سے اٹھا تابش حسن بھی تھی آتش دنیا بھی
ہر طرف انبساط ہے اے دل
ہر طرف انبساط ہے اے دل اور ترے گھر میں رات ہے اے دل عشق ان ظالموں کی دنیا میں کتنی مظلوم ذات ہے اے
تری تلاش میں ہر رہنما سے باتیں کیں
تری تلاش میں ہر رہنما سے باتیں کیں خلا سے ربط بڑھایا ہوا سے باتیں کیں کبھی ستاروں نے بھیجا ہمیں کوئی پیغام تو مدتوں
وہ عہد عہد ہی کیا ہے جسے نبھاؤ بھی
وہ عہد عہد ہی کیا ہے جسے نبھاؤ بھی ہمارے وعدہ الفت کو بھول جاؤ بھی بھلا کہاں کے ہم ایسے گمان والے ہیں ہزار
روکتا ہے غم اظہار سے پندار مجھے
روکتا ہے غم اظہار سے پندار مجھے میرے اشکوں سے چھپا لے مرے رخسار مجھے دیکھ اے دشت جنوں بھید نہ کھلنے پائے ڈھونڈنے آئے
سینے میں خزاں آنکھوں میں برسات رہی ہے
سینے میں خزاں آنکھوں میں برسات رہی ہے اس عشق میں ہر فصل کی سوغات رہی ہے کس طرح خود اپنے کو یقیں آئے کہ
Nazm
وصال
وہ نہیں تھی تو دل اک شہر وفا تھا جس میں اس کے ہونٹوں کے تصور سے تپش آتی تھی اس کے انکار پہ بھی
رات سنسان
میز چپ چاپ گھڑی بند کتابیں خاموش اپنے کمرے کی اداسی پہ ترس آتا ہے میرا کمرہ جو مرے دل کی ہر اک دھڑکن کو
دوراہا
جاگ اے نرم نگاہی کے پر اسرار سکوت آج بیمار پہ یہ رات بہت بھاری ہے جو خود اپنے ہی سلاسل میں گرفتار رہے ان
فرہاد
اس سے ملنا تو اس طرح کہنا تجھ سے پہلے مری نگاہوں میں کوئی روپ اس طرح نہ اترا تھا تجھ سے آباد ہے خرابۂ
وفا کیسی؟
آج وہ آخری تصویر جلا دی ہم نے جس سے اس شہر کے پھولوں کی مہک آتی تھی جس سے بے نور خیالوں پہ چمک
آخری بار ملو
آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوئے دل راکھ ہو جائیں کوئی اور تقاضہ نہ کریں چاک وعدہ نہ سلے زخم تمنا نہ کھلے سانس
یاد
رات اوڑھے ہوئے آئی ہے فقیروں کا لباس چاند کشکول گدائی کی طرح نادم ہے ایک اک سانس کسی نام کے ساتھ آتی ہے ایک
ایک شام
یوں تو لمحوں کے اس تسلسل میں اب سے پہلے بھی عمر کٹتی تھی موم بتی کی روشنی میں نظر حافظے کے ورق الٹتی تھی
اجالا
میری ہمدم، مرے خوابوں کی سنہری تعبیر مسکرا دے کہ مرے گھر میں اجالا ہو جائے آنکھ ملتے ہوئے اٹھ جائے کرن بستر سے صبح
تری ہنسی
فلک کا ایک تقاضا تھا ابن آدم سے سلگ سلگ کے رہے اور پلک جھپک نہ سکے ترس رہا ہو فضا کا مہیب سناٹا سڈول
میری پتھر آنکھیں
اب کے مٹی کی عبارت میں لکھی جائے گی سبز پتوں کی کہانی رخ شاداب کی بات کل کے دریاؤں کی مٹتی ہوئی مبہم تحریر
آدمی
مجھ کو محصور کیا ہے مری آگاہی نے میں نہ آفاق کا پابند نہ دیواروں کا میں نہ شبنم کا پرستار نہ انگاروں کا نہ
Sher
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے مصطفی زیدی
یوں تو وہ ہر کسی سے ملتی ہے ہم سے اپنی خوشی سے ملتی ہے مصطفی زیدی
تجھ سے تو دل کے پاس ملاقات ہو گئی میں خود کو ڈھونڈنے کے لیے در بہ در گیا مصطفی زیدی
مت پوچھ کہ ہم ضبط کی کس راہ سے گزرے یہ دیکھ کہ تجھ پر کوئی الزام نہ آیا مصطفی زیدی
ہم نے تو لٹ کے محبت کی روایت رکھ لی ان سے تو پوچھیے وہ کس لیے پچھتاتے رہے مصطفی زیدی
ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہے اپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملا مصطفی زیدی
کوئی رفیق بہم ہی نہ ہو تو کیا کیجے کبھی کبھی ترا غم ہی نہ ہو تو کیا کیجے مصطفی زیدی
عشق ان ظالموں کی دنیا میں کتنی مظلوم ذات ہے اے دل مصطفی زیدی
اس طرح ہوش گنوانا بھی کوئی بات نہیں اور یوں ہوش سے رہنے میں بھی نادانی ہے مصطفی زیدی
مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے مصطفی زیدی
جس دن سے اپنا طرز فقیرانہ چھٹ گیا شاہی تو مل گئی دل شاہانہ چھٹ گیا مصطفی زیدی
روح کے اس ویرانے میں تیری یاد ہی سب کچھ تھی آج تو وہ بھی یوں گزری جیسے غریبوں کا تیوہار مصطفی زیدی
Article
اپنی شاعری کے بارے میں
’’بغیر انسپریشن شعرلکھنا ہمارے اوپر حرام ہے۔ مصرع موزوں کرنا، قافیہ ردیف میں رواں دواں ابیات نکال لینا بالکل آسان ہے۔ روز ایسے مصرعے اور
Qita
یوں تو اکثر خیال آتا تھا
یوں تو اکثر خیال آتا تھا میں جو ہوں اس سے ماسوا بن جاؤں تیری آنکھوں کو دیکھنے کے بعد میں نے چاہا کہ میں
وقت کے ساتھ لوگ کہتے تھے
وقت کے ساتھ لوگ کہتے تھے زخم دل بھی تمہارے ہوں گے دور آج کوئی انہیں خبر کر دو میرا ہر زخم بن گیا ناسور
کاش ہم لوگ لڑ گئے ہوتے
کاش ہم لوگ لڑ گئے ہوتے آپ کی دوستی کا رونا ہے دل سے گرد الم نہیں چھٹتی آنسوؤں کی کمی کا رونا ہے مصطفی
سن کے لوگوں کے زہر سے فقرے
سن کے لوگوں کے زہر سے فقرے دیکھ کر اپنے گھر کی بربادی میں بھی جب مسکرا ہی لیتا ہوں تم تو کتنا بدل گئی
اس کے چہرے کا عکس پڑتا ہے
اس کے چہرے کا عکس پڑتا ہے اس کی باتیں شروع ہوتی ہیں آج کل رات بھر مرے دل میں کتنی صبحیں طلوع ہوتی ہیں
اللہ اللہ یہ لرزش مژگاں
اللہ اللہ یہ لرزش مژگاں جھٹپٹے کا ہے طرفہ راز و نیاز راگنی میں ڈھلا ہوا گویا رات کو گھومتے کرے کا گداز مصطفی زیدی
صرف کہہ دوں کہ ناؤ ڈوب گئی
صرف کہہ دوں کہ ناؤ ڈوب گئی یا بتاؤں کہ کیسے ڈوبی تھی تم کہانی تو خیر سن لو گی آپ بیتی کہوں کہ جگ
میری آنکھوں میں نیند چبھتی ہے
میری آنکھوں میں نیند چبھتی ہے میرے سینے میں جاگتے ہیں الاؤ دیوتاؤ مری کہانی کو تم سمجھ لو تو آدمی بن جاؤ مصطفی زیدی
مدتوں کور نگاہی دل کی
مدتوں کور نگاہی دل کی نور عرفاں کو ترستی رہتی تو جو خورشید نہ بن کر آتی ذہن پر اوس برستی رہتی مصطفی زیدی
اس کو کرنوں نے دی ہے تابانی
اس کو کرنوں نے دی ہے تابانی اس کو مہتاب نے سنوارا ہے یوں وہ عورت ضرور ہے لیکن اس کی بنیاد استعارہ ہے مصطفی
مجھ کو چپ چاپ اس طرح مت دیکھ
مجھ کو چپ چاپ اس طرح مت دیکھ میرے بستر کی سلوٹیں مت کھول رات میں کتنی دیر سویا ہوں بول اے صبح کے ستارے