Haider Qureshi
- 1 September 1953
- Rabwah, Punjab, Pakistan
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
وصل کی شب تھی اور اجالے کر رکھے تھے
وصل کی شب تھی اور اجالے کر رکھے تھے جسم و جاں سب اس کے حوالے کر رکھے تھے جیسے یہ پہلا اور آخری میل
میرے اس کے درمیاں جو فاصلہ رکھا گیا
میرے اس کے درمیاں جو فاصلہ رکھا گیا اس کے طے کرنے کو بھی اک راستہ رکھا گیا عکس کھو جائیں اگر ہلکا سا کنکر
جو بس میں ہے وہ کر جانا ضروری ہو گیا ہے
جو بس میں ہے وہ کر جانا ضروری ہو گیا ہے تری چاہت میں مر جانا ضروری ہو گیا ہے ہمیں تو اب کسی اگلی
اک خواب کہ جو آنکھ بھگونے کے لیے ہے
اک خواب کہ جو آنکھ بھگونے کے لیے ہے اک یاد کہ سینے میں چبھونے کے لیے ہے اک زخم کہ سب زخم بھلا ڈالے
لفظ تیری یاد کے سب بے صدا کر آئے ہیں
لفظ تیری یاد کے سب بے صدا کر آئے ہیں سارے منظر آئنوں سے خود مٹا کر آئے ہیں جل چکے ساری مہکتی خواہشوں کے
اس دربار میں لازم تھا اپنے سر کو خم کرتے
اس دربار میں لازم تھا اپنے سر کو خم کرتے ورنہ کم از کم اپنی آواز ہی مدھم کرتے اس کی انا تسکین نہیں پاتی
خموش آنکھوں سے کرتا رہا سوال مجھے
خموش آنکھوں سے کرتا رہا سوال مجھے وہ آ کے کہہ نہ سکا اپنے دل کا حال مجھے کبھی تو خود کو بھی پہچاننے کی
فصل غم کی جب نوخیزی ہو جاتی ہے
فصل غم کی جب نوخیزی ہو جاتی ہے درد کی موجوں میں بھی تیزی ہو جاتی ہے پانی میں بھی چاند ستارے اگ آتے ہیں
اب کے اس نے کمال کر ڈالا
اب کے اس نے کمال کر ڈالا اک خوشی سے نڈھال کر ڈالا چاند بن کر چمکنے والے نے مجھ کو سورج مثال کر ڈالا
کسی بھی لفظ کا جادو اثر نہیں کرتا
کسی بھی لفظ کا جادو اثر نہیں کرتا وہ اپنے دل کی مجھے بھی خبر نہیں کرتا بنا ہوا ہے بظاہر وہ بے تعلق بھی
اندر کی دنیائیں ملا کے ایک نگر ہو جائیں
اندر کی دنیائیں ملا کے ایک نگر ہو جائیں یا پھر آؤ مل کر ٹوٹیں اور کھنڈر ہو جائیں ایک نام پڑھیں یوں دونوں اور
عجیب کرب و بلا کی ہے رات آنکھوں میں
عجیب کرب و بلا کی ہے رات آنکھوں میں سسکتی پیاس لبوں پر فرات آنکھوں میں تمہیں تو گردش دوراں نے روند ڈالا ہے رہی
Sher
وہ نام لکھوں تو لفظوں سے خوشبوئیں اٹھیں وہ دے گیا جو مہکتے ہوئے خیال مجھے حیدر قریشی
سب تقاضے ویسے پورے ہو گئے انصاف کے بس فقط محفوظ میرا فیصلہ رکھا گیا حیدر قریشی
سیکھ لیا ہے آخر ہم نے عشق میں خوش خوش رہنا درد کو اپنی دوا بناتے زخم کو مرہم کرتے حیدر قریشی
آنکھوں میں ابھی دھول سی لمحوں کی جمی ہے دل میں کوئی سیلاب سا رونے کے لیے ہے حیدر قریشی
پہلے غم سے نہال کرتا تھا اب خوشی سے نہال کر ڈالا حیدر قریشی
اندھیرا اس قدر گہرا گیا ہے دل کے اندر کوئی سورج ابھر جانا ضروری ہو گیا ہے حیدر قریشی
سارے رشتے جھوٹ ہیں سارے تعلق پر فریب پھر بھی سب قائم رہیں یہ بد دعا کر آئے ہیں حیدر قریشی
کھوج رہے تھے روح کو جسموں کے رستے سے طور طریقے پاگلوں والے کر رکھے تھے حیدر قریشی
ٹھہرنے بھی نہیں دیتا ہے اپنے دل میں مجھے محبتیں بھی مری دل بدر نہیں کرتا حیدر قریشی
صوفی سادھو بن کر تیری کھوج میں ایسے نکلیں خود ہی اپنا رستہ منزل اور سفر ہو جائیں حیدر قریشی
بدل جاتے ہیں اک لمحے میں ہی تاریخ کے دھارے کبھی جو موج میں آ کر قلندر بول اٹھتے ہیں حیدر قریشی
تمہیں تو گردش دوراں نے روند ڈالا ہے رہی نہ کوئی بھی پہلی سی بات آنکھوں میں حیدر قریشی
Short Stories
مسکراہٹ کا عکس
روشنی کا استعارہ کر لیا دل نے ہر آنسو ستارہ کر لیا ایک بہت بڑے فریم میں اباجی کی ایک بڑے سائز کی تصویر لگا