Amjad Islam Amjad
- 4 August 1944 – 10 February 2023
- Lahore, Pakistan
Introduction
Ghazal
کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا
کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا وُہ جُو مِل گیا اسے یاد رکھ ، جُو نہیں ملا اسے بھول
چہرے پہ میرے زلف کو پھیلاؤ کسی دِن
چہرے پہ میرے زلف کو پھیلاؤ کسی دِن کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دِن رازوں کی طرح اترو میرے دِل میں کسی شب
تھے خواب ایک ہمارے بھی اُور تمہارے بھی
تھے خواب ایک ہمارے بھی اُور تمہارے بھی پر اپنا کھیل دکھاتے رہے ستارے بھی یہ زندگی ہے یہاں اس طرح ہی ہوتا ہے سبھی
یہ اُور بات ہے تُجھ سے گلا نہیں کرتے
یہ اُور بات ہے تُجھ سے گلا نہیں کرتے جُو زخم تُو نے دیے ہیں بھرا نہیں کرتے ہزار جال لیے گھومتی پھرے دنیا تیرے
دوریاں سمٹنے میں دیر کچھ تُو لگتی ہے
دوریاں سمٹنے میں دیر کچھ تُو لگتی ہے رنجشوں کہ مٹنے میں دیر کچھ تُو لگتی ہے ہجر کہ دوراہے پر ایک پل نہ ٹھہرا
بھیڑ میں اِک اجنبی کا سامنا اچھا لگا
بھیڑ میں اِک اجنبی کا سامنا اچھا لگا سب سے چھپ کر وُہ کسی کا دیکھنا اچھا لگا سرمئی آنکھوں کہ نیچے پھول سے کھلنے
یہ جُو حاصل ہمیں ہر شے کی فراوانی ہے
یہ جُو حاصل ہمیں ہر شے کی فراوانی ہے یہ بھی تُو اپنی جگہ ایک پریشانی ہے زندگی کا ہی نہیں ٹھور ٹھکانہ معلوم مُوت
جُو دِن تھا ایک مصیبت تُو رات بھاری تھی
جُو دِن تھا ایک مصیبت تُو رات بھاری تھی گزارنی تھی مگر زندگی گزاری تھی سواد شُوق میں ایسے بھی کچھ مقام آئے نہ مُجھ
کسی کی آنکھ میں خود کو تلاش کرنا ہے
کسی کی آنکھ میں خود کو تلاش کرنا ہے پھر اِس کہ بعد ہمیں آئنوں سے ڈرنا ہے فلک کی بند گلی کہ فقیر ہیں
صدیاں جن میں زندہ ہوں وُہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں
صدیاں جن میں زندہ ہوں وُہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں دھوپ آنکھوں تک آ جائے تُو خواب بکھرنے لگتے ہیں انسانوں کہ روپ میں
تمہارا ہاتھ جب مرے لرزتے ہاتھ سے چھوٹا خزاں کہ آخری دِن تھے
تمہارا ہاتھ جب مرے لرزتے ہاتھ سے چھوٹا خزاں کہ آخری دِن تھے وُہ محکم بے لچک وعدہ کھلونے کی طرح ٹوٹا خزاں کہ آخری
جیسے میں دیکھتا ہوں لوگ نہیں دیکھتے ہیں
جیسے میں دیکھتا ہوں لوگ نہیں دیکھتے ہیں ظلم ہوتا ہے کہیں اُور کہیں دیکھتے ہیں تیر آیا تھا جدھر یہ میرے شہر کہ لوگ
Nazm
مُحبت کی ایک نظم
مُحبت کی ایک نظم اگر کبھی مری یاد آئے تّو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں کسی ستارے کو دیکھ لینا اگر وُہ نخل
ذرا سی بات
زندگی کہ میلے میں خواہشوں کہ ریلے میں تم سے کیا کہیں جاناں اِس قدر جھمیلے میں وقت کی روانی ہے بخت کی گرانی ہے
سیلف میڈ لوگوں کا المیہ
سیلف میڈ لوگوں کا المیہ روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے زندگی کہ رستے میں بچھنے والے کانٹوں کو راہ سے ہٹانے میں ایک
ایک لڑکی
گلاب چہرے پہ مسکراہٹ چمکتی آنکھوں میں شوخ جذبے وُہ جب بھی کالج کی سیڑھیوں سے سہیلیوں کو لیے اترتی تُو ایسے لگتا تھا جیسے
ایک کمرۂ امتحان میں
بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں پرچے کو بے خیال ہاتھوں سے ان بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتے ہیں یا سوال نامے کو دیکھتے
آخری بوسہ
میرے ہونٹوں پہ اس کہ آخری بوسے کی لذت ثبت ہے وُہ اس کا آخری بوسہ جُو مستقبل کہ ہر اِک خوف سے آزاد اِک
اے دِل بے خبر
اے دِل بے خبر جُو ہوا جا چکی اب نہیں آئے گی جُو شجر ٹوٹ جاتا ہے پھلتا نہیں واپسی موسموں کا مقدر تُو ہے
خواب سراب
اب جُو سوچیں بھی تُو خوف آتا ہے کس قدر خواب تھے جُو خواب رہے کس قدر نقش تھے جُو نقش سر آب رہے کس
اِک بار جُو کھو جائے وُہ وقت نہیں ملتا
اِک بار جُو کھو جائے وُہ وقت نہیں ملتا جُو پھول بکھر جائے وُہ مرجھا کہ نہیں کھلتا جُو وقت ملا ہم کو اللہ کی
ایک بلی دو چوہے
دُو چوہوں کی ایک کہانی کچھ تازہ ہے کچھ ہے پرانی اِک چوہے کی جیب میں بٹوا اِک چوہے کہ ہاتھ میں حقہ حقے میں
فاصلے
اب وُہ آنکھوں کہ شگوفے ہیں نہ چہروں کہ گلاب ایک منحوس اداسی ہے کے مٹتی ہی نہیں اتنی بے رنگ ہیں اب رنگ کی
آبلہ
اُداسی کہ افق پر جب تمہاری یاد کہ جگنو چمکتے ہیں تُو مری روح پر رکھا ہوا یہ ہجر کا پتھر چمکتی برف کی صورت
Sher
جس طرف تو ہے ادھر ہوں گی سبھی کی نظریں
جس طرف تو ہے ادھر ہوں گی سبھی کی نظریں .عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی امجد اسلام امجد
کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا
کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا .وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا
اس کے لہجے میں برف تھی لیکن
اس کے لہجے میں برف تھی لیکن .چھو کے دیکھا تو ہاتھ جلنے لگے امجد اسلام امجد
لکھا تھا ایک تختی پر کوئی بھی پھول مت توڑے مگر آندھی تو ان پڑھ تھی
لکھا تھا ایک تختی پر کوئی بھی پھول مت توڑے مگر آندھی تو ان پڑھ تھی .سو جب وہ باغ سے گزری کوئی اکھڑا کوئی
جہاں ہو پیار غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں
جہاں ہو پیار غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں .سو بات بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے امجد اسلام امجد
ہر بات جانتے ہوئے دل مانتا نہ تھا
ہر بات جانتے ہوئے دل مانتا نہ تھا .ہم جانے اعتبار کے کس مرحلے میں تھے امجد اسلام امجد
بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے
بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے .جو ساحلوں پہ کھڑے تھے بہت پکارے بھی امجد اسلام امجد
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں .دل بے خبر مری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا امجد اسلام
سوال یہ ہے کہ آپس میں ہم ملیں کیسے
سوال یہ ہے کہ آپس میں ہم ملیں کیسے .ہمیشہ ساتھ تو چلتے ہیں دو کنارے بھی امجد اسلام امجد
زندگی درد بھی دوا بھی تھی
زندگی درد بھی دوا بھی تھی .ہم سفر بھی گریز پا بھی تھی امجد اسلام امجد
جیسے بارش سے دھلے صحن گلستاں امجد
جیسے بارش سے دھلے صحن گلستاں امجدؔ .آنکھ جب خشک ہوئی اور بھی چہرا چمکا امجد اسلام امجد
جیسے ریل کی ہر کھڑکی کی اپنی اپنی دنیا ہے
جیسے ریل کی ہر کھڑکی کی اپنی اپنی دنیا ہے .کچھ منظر تو بن نہیں پاتے کچھ پیچھے رہ جاتے ہیں امجد اسلام امجد
Qita
مرے خوش نظر مرے خوش خبر
مرے خوش نظر مرے خوش خبر یہ جو رات ہے اسے ٹال دے مرے گلستاں پہ نگاہ کر اسے اپنا رنگ جمال دے امجد اسلام
سر کہکشاں مرا عکس ہو
سر کہکشاں مرا عکس ہو مرے شوق کو پر و بال دے مرے فن سے پھیلے جو روشنی اسے پھر کبھی نہ زوال دے امجد
مرے کاسۂ شب و روز میں
مرے کاسۂ شب و روز میں کوئی شام ایسی بھی ڈال دے سبھی خواہشوں کو ہرا کرے سبھی خوف دل سے نکال دے امجد اسلام