Aamir Ata
- 11 August 1994
- Kolkata, India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
خوشی کا ایک لمحہ چاہئے تھا
خُوشَی کا ایک لَمَحَہ چاہئے تَھا گھڑی بھر سَاتْھ تیرَا چاہئے تھا مَلَّا تُھا میں مہینُوں بَعْدَ تَمَّ سے تَمَّہیں سینے سے لگنَا چاہئے تھا
اس طرح تو لگ رہا ہے چاند بھی خطرے میں ہے
اسْ طُرَحَ تُو لگ رہا ہے چانْدْ بِھی خَطَرِے میں ہے اسْ سے مل کر میں نے جَانَا رُوشَنْی خَطَرْے میں ہے اسْ کی صُوَّرَتْ
اب وہ سب کچھ کر رہے ہیں دوستی کی آڑ میں
ابْ وَہ سَبُّ کچھ کر رہے ہیں دُوسْتْی کی آڑ میں غیر ممکن تھا جُو شَاید دِشْمِنْی کی آڑ میں اسْ قَدْرْ نَخْرْے نْہ کر
عشق میں اب خون پانی کیجیے
عِشْقَ میں ابْ خُونٍ پانْی کیجیے نَذُرْ وَحْشَتْ یہ جَوَانْی کیجیے آپ کے ہاتْھوَں میں ہے سَانْسُوں کی ڈوَرْ جْتَنْی چاہے کھینُچا تَانْی کیجیے التِجَا
پہلے اپنایا خار پھولوں کا
پہلے اپنایا خار پھولوں کا تب کہیں پایا پیار پھولوں کا یاد آتی ہے اس کی مت چھیڑو ذکر یوں بار بار پھولوں کا میں
کسی طرح تو اسے مار دوں جو باہر ہے
کسی طرح تو اسے مار دوں جو باہر ہے وہ شخص کیسے مرے گا جو میرے اندر ہے سکھا دیا مجھے آداب گفتگو تو نے
سب کو اپنی طرح سمجھتی ہے
سب کو اپنی طرح سمجھتی ہے یار تو بھی نہ کتنی بھولی ہے سرخ دیکھے ہیں میں نے لب اس کے ایسا لگتا ہے خون
آنکھ تو ان پڑھ ہے اور نادان ہے
آنکھ تو ان پڑھ ہے اور نادان ہے دل کی خواہش ایک ہی انسان ہے اس لئے سب آگے پیچھے ہیں مرے تجھ سے جو
خواب میں کر کے رہائی کے نظارے قیدی
خواب میں کر کے رہائی کے نظارے قیدی جاگ کر روتے رہے آج بے چارے قیدی آپ کی دنیا میں جھولے کی سہولت ہوگی جھولتے
سچ بتانا کہ میرے بن جاناں
سچ بتانا کہ میرے بن جاناں کیسے کٹتے ہیں تیرے دن جاناں کس کے بازو پہ اب چبھاؤ گی اپنے اسکارف کا وہ پن جاناں
ہم تو روتے ہیں رونا خواہش کا
ہم تو روتے ہیں رونا خواہش کا وہ مزہ لے رہے ہیں بارش کا سب مقدر سے مل رہا ہے یہاں زور چلتا رہے گا
بتا تو اے چمن لایا کہاں سے
بتا تو اے چمن لایا کہاں سے تری خوشبو تو ملتی ہے فلاں سے وہ اک صورت جو کل شب خواب میں تھی یقیناً ہوگی
Sher
اے عطا ظاہر تو کر بے چینیوں کے راز کچھ
اے عَطَاؔ ظًاہر تُو کر بے چینیوَں کے رَازْ کچھ لکھ رہا ہے نَامْ کس کا تُو بِرَابِرْ کاٹ کر عامر عطا
وہ میری زندگی سے یوں ہی نکلی
وَہ میری زَنْدُگی سے یوَں ہی نْکلِی نکلِتَا تیر ہے جیسے کمَاں سے عامر عطا
التجا کر کے نہ شرمندہ کریں
التِجَا کر کے نہ شِرْمَنْدَہ کریں حکمُرًّاں ہیں حکمَرَانُی کیجیے عامر عطا
عشق کے امتحاں سے گزروں گا
عِشْقَ کے امْتِحَاں سے گزَرُوں گا پرچے ہوَں جَسَّ قَدْرُ کٹھنُ جَانَاں عامر عطا
کوئی بیوہ کے دکھ کو کیا سمجھتا
کوَئْی بیوَہ کے دکھ کوَ کیا سَمْجْھتَا سَبْھوَں کوَ گھر میں حَصْہ چاہئے تَھا عامر عطا
ملا تھا میں مہینوں بعد تم سے
مَلَّا تُھا میں مہینُوں بَعْدَ تَمَّ سے تَمَّہیں سینے سے لگنَا چاہئے تھا عامر عطا
جھیل سی آنکھوں میں اس کی ڈوب سکتی ہے کبھی
جھیل سی آنْکھوَں میں اسْ کی ڈوَب سکتی ہے کبھی رُوک لُو اسْ کوَ کوِئْی جَا کر نِدْی خَطَرْے میں ہے عامر عطا
اس کی صورت دیکھ کر بولا ستاروں سے قمر
اسْ کی صُوَّرَتْ دیکھ کر بُولَا سِتَارُوں سْے قَمْرْ یارْ لْگتَا ہے کہ اپنی نُوکری خَطَرے میں ہے عامر عطا