Kishwar Naheed
- 1940
- Bulandshahr, Uttar Pradesh, British India
Introduction
Ghazal
کچھ دن تو ملال اس کا حق تھا
کچھ دن تو ملال اس کا حق تھا بچھڑا تو خیال اس کا حق تھا وہ رات بھی دن سی تازہ رکھتا شبنم کا جمال
تجھ سے وعدہ عزیز تر رکھا
تجھ سے وعدہ عزیز تر رکھا وحشتوں کو بھی اپنے گھر رکھا اپنی بے چہرگی چھپانے کو آئنے کو ادھر ادھر رکھا اک ترا غم
بگڑی بات بنانا مشکل بگڑی بات بنائے کون
بگڑی بات بنانا مشکل بگڑی بات بنائے کون کنج تمنا ویرانہ ہے آ کر پھول کھلائے کون تن کی دولت من کی دولت سب خوابوں
دل کو بھی غم کا سلیقہ نہ تھا پہلے پہلے
دل کو بھی غم کا سلیقہ نہ تھا پہلے پہلے اس کو بھی بھولنا اچھا لگا پہلے پہلے دل تھا شب زاد اسے کس کی
کبھی بھلایا نہیں یاد بھی کیا نہیں ہے
کبھی بھلایا نہیں یاد بھی کیا نہیں ہے یہ کیسا جرم ہے جس میں کوئی سزا نہیں ہے میں بات بات پہ رونے کا ماجرا
عمر میں اس سے بڑی تھی لیکن پہلے ٹوٹ کے بکھری میں
عمر میں اس سے بڑی تھی لیکن پہلے ٹوٹ کے بکھری میں ساحل ساحل جذبے تھے اور دریا دریا پہنچی میں شہر میں اس کے
حسرت ہے تجھے سامنے بیٹھے کبھی دیکھوں
حسرت ہے تجھے سامنے بیٹھے کبھی دیکھوں میں تجھ سے مخاطب ہوں ترا حال بھی پوچھوں دل میں ہے ملاقات کی خواہش کی دبی آگ
کچھ اتنے یاد ماضی کے فسانے ہم کو آئے ہیں
کچھ اتنے یاد ماضی کے فسانے ہم کو آئے ہیں کہ جن راہوں میں اجڑے تھے انہی پر لوٹ آئے ہیں بڑا پیارا ہے وہ
ایک ہی آواز پر واپس پلٹ آئیں گے لوگ
ایک ہی آواز پر واپس پلٹ آئیں گے لوگ تجھ کو پھر اپنے گھروں میں ڈھونڈنے جائیں گے لوگ ڈوبتے سورج کی صورت میرا چہرہ
دل کی دیوار میں آئینہ رکھا تھا کس نے
دل کی دیوار میں آئینہ رکھا تھا کس نے مجھ کو پہچانتے رہنے کو کہا تھا کس نے دشمن جاں ترے ہاتھوں میں تو پتھر
زخم بھی تازہ تھا اور اس پہ ہوا بھی تازہ
زخم بھی تازہ تھا اور اس پہ ہوا بھی تازہ دل نے رکھا تھا مگر رخش دعا بھی تازہ تر بہ تر ہے مرے ہاتھوں
وہ اجنبی تھا غیر تھا کس نے کہا نہ تھا
وہ اجنبی تھا غیر تھا کس نے کہا نہ تھا دل کو مگر یقین کسی پر ہوا نہ تھا ہم کو تو احتیاط غم دل
Nazm
ہم گنہ گار عورتیں
یہ ہم گنہ گار عورتیں ہیں جو اہل جبہ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں نہ جان بیچیں نہ سر جھکائیں نہ ہاتھ جوڑیں یہ
گھاس تو مجھ جیسی ہے
گھاس بھی مجھ جیسی ہے پاؤں تلے بچھ کر ہی زندگی کی مراد پاتی ہے مگر یہ بھیگ کر کس بات گواہی بنتی ہے شرمساری
خداؤں سے کہہ دو
جس دن مجھے موت آئے اس دن بارش کی وہ جھڑی لگے جسے تھمنا نہ آتا ہو لوگ بارش اور آنسوؤں میں تمیز نہ کر
ایک نظم اجازتوں کے لی
تم مجھے پہن سکتے ہو کہ میں نے اپنے آپ کو دھلے ہوئے کپڑے کی طرح کئی دفعہ نچوڑا ہے کئی دفعہ سکھایا ہے تم
سونے سے پہلے ایک خیال
مجھے نومبر کی دھوپ کی طرح مت چاہو کہ اس میں ڈوبو تو تمازت میں نہا جاؤ اور اس سے الگ ہو تو ٹھنڈک کو
جلا وطنی
آج سرحد پہ خاموش توپوں کے ہونٹوں پہ پپڑی کی تہ بھی چٹخ کر گری ہے ہر اک روز صبح سویرے سے تاریکیوں کی تہوں
آخری خواہش
آج تو میرے کپڑے بھی پانی کی طرح بھاری ہیں موت کا کاجل آنکھوں میں لگانا اور آنکھوں میں پٹی باندھ کر تار پہ سائیکل
کتے اور خرگوش
دو خرگوش تھے پیارے پیارے اک موتی اک ہیرا موتی کالے کانوں والا ہیرا بھورا بھورا دو کتوں نے دیکھا ان کو چین سے یوں
چڑیا اور کوئل
موٹا سا اک باجے والا چلتا چلتا جنگل آیا جنگل میں کوئل رہتی تھی پنجرے میں بند وہ بیٹھی تھی باجے کو دیکھ کے چہکی
قید میں رقص
سب کے لیے نا پسندیدہ اڑتی مکھی کتنی آزادی سے میرے منہ اور میرے ہاتھوں پر بیٹھتی ہے اور اس روزمرہ سے آزاد ہے جس
بطخ اور سانپ
ہرن کا ایک چھوٹا بچہ دریا کے کنارے آ نکلا وہاں پہ ایک بطخ بھی تھی مچھلی سے وہ یہ کہتی تھی میں تو دریا
گلاس لینڈسکیپ
ابھی سردی پوروں کی پہچان کے موسم میں ہے اس سے پہلے کہ برف میرے دروازے کے آگے دیوار بن جائے تم قہوے کی پیالی
Sher
دل کو بھی غم کا سلیقہ نہ تھا پہلے پہلے
دل کو بھی غم کا سلیقہ نہ تھا پہلے پہلے اس کو بھی بھولنا اچھا لگا پہلے پہلے کشور ناہید
کچھ دن تو ملال اس کا حق تھا
کچھ دن تو ملال اس کا حق تھا بچھڑا تو خیال اس کا حق تھا کشور ناہید
ہمیں دیکھو ہمارے پاس بیٹھو ہم سے کچھ سیکھو
ہمیں دیکھو ہمارے پاس بیٹھو ہم سے کچھ سیکھو ہمیں نے پیار مانگا تھا ہمیں نے داغ پائے ہیں کشور ناہید
دل میں ہے ملاقات کی خواہش کی دبی آگ
دل میں ہے ملاقات کی خواہش کی دبی آگ مہندی لگے ہاتھوں کو چھپا کر کہاں رکھوں کشور ناہید
جوان گیہوں کے کھیتوں کو دیکھ کر رو دیں
جوان گیہوں کے کھیتوں کو دیکھ کر رو دیں وہ لڑکیاں کہ جنہیں بھول بیٹھیں مائیں بھی کشور ناہید
بگڑی بات بنانا مشکل بگڑی بات بنائے کون
بگڑی بات بنانا مشکل بگڑی بات بنائے کون کنج تمنا ویرانہ ہے آ کر پھول کھلائے کون کشور ناہید
تجھ سے وعدہ عزیز تر رکھا
تجھ سے وعدہ عزیز تر رکھا وحشتوں کو بھی اپنے گھر رکھا کشور ناہید
ہمیں عزیز ہیں ان بستیوں کی دیواریں
ہمیں عزیز ہیں ان بستیوں کی دیواریں کہ جن کے سائے بھی دیوار بنتے جاتے تھے کشور ناہید
تعلقات کے تعویذ بھی گلے میں نہیں
تعلقات کے تعویذ بھی گلے میں نہیں ملال دیکھنے آیا ہے راستہ کیسے کشور ناہید
اپنی بے چہرگی چھپانے کو
اپنی بے چہرگی چھپانے کو آئینے کو ادھر ادھر رکھا کشور ناہید
کون جانے کہ اڑتی ہوئی دھوپ بھی
کون جانے کہ اڑتی ہوئی دھوپ بھی کس طرف کون سی منزلوں میں گئی کشور ناہید
اس کو فرصت بھی نہیں مجھ کو تمنا بھی نہیں
اس کو فرصت بھی نہیں مجھ کو تمنا بھی نہیں پھر خلش کیا ہے کہ رہ رہ کے وفا ڈھونڈھتی ہے کشور ناہید
Doha
سوت کے کچے دھاگے جیسے رشتے پر اتراؤں
سوت کے کچے دھاگے جیسے رشتے پر اتراؤں ساجن ہاتھ بھی چھو لیں تو میں پھول گلاب بن جاؤں کشور ناہید
پریم کیا اور ساتھ نہ چھوٹا کیسے تھے وہ لوگ
پریم کیا اور ساتھ نہ چھوٹا کیسے تھے وہ لوگ ہم نے پیاروں کا اب تک دیکھا نہ سنجوگ کشور ناہید
میں بہری تھی کاگا بولا سن نہ سکی سندیش
میں بہری تھی کاگا بولا سن نہ سکی سندیش دل کہتا ہے کل آئیں گے پیا بدل کے بھیس کشور ناہید
ٹھنڈی رات اور ٹھنڈا بستر سکھی ری کانٹے آئے
ٹھنڈی رات اور ٹھنڈا بستر سکھی ری کانٹے آئے لوگ کہیں جو دکھ سانجھے ہوں دل ہلکا ہو جائے کشور ناہید
آنکھ کی پتلی سب کچھ دیکھے دیکھے نہ اپنی ذات
آنکھ کی پتلی سب کچھ دیکھے دیکھے نہ اپنی ذات اجلا دھاگا میلا ہووے لگیں جو میلے ہات کشور ناہید
تکیہ بھیگا سانس بھی ڈوبی مرجھائی ہر آس
تکیہ بھیگا سانس بھی ڈوبی مرجھائی ہر آس دل کو راہ پہ لانے کی ہر آس بنی سنیاس کشور ناہید
تپتے لمحے دہکتے چہرے سب کچھ دھیان میں لاؤں
تپتے لمحے دہکتے چہرے سب کچھ دھیان میں لاؤں پتی پتی چاہے توڑوں دل کا بوجھ ہٹاؤں کشور ناہید
Children stories
اپنی مدد آپ
ایک آدمی گاڑی میں بھوسا بھر کر لیے جا رہا تھا۔ راستے میں کیچڑ تھی۔ گاڑی کیچڑ میں پھنس گئی۔ وہ آدمی سر پکڑ کر
شبنم کا تاج
کسی بادشاہ کی صرف ایک ہی بیٹی تھی۔ وہ بہت ضدی تھی۔ ایک دن صبح کو وہ باغ میں ٹہلنے کے لئے گئی تو اس
چاند کی بیٹی
ایک چھوٹی سی بچی تھی۔ اس کے ماں باپ مرچکے تھے۔ وہ بچاری گھر میں اکیلی رہ گئی تھی۔ ایک امیر آدمی کے گھر میں
سونے کی کلہاڑی
ایک لکڑہارا تھا۔ وہ لکڑیاں بیچ کر اپنا پیٹ پالتا تھا۔ ایک دن لکڑہارے کی کلہاڑی کھو گئی۔ اس کے پاس اتنے پیسے نہ تھے
بارہ مہینے
ایک دن ایک بوڑھی عورت اپنے کھیت میں سے بند گوبھی توڑنے جا رہی تھی۔ راستے میں ایک غار پڑ تھا تھا جس میں بارہ
لڑائی کا نتیجہ
دو لڑکیاں سمندر کے کنارے ٹہل رہی تھیں۔ ایک لڑکی چلائی ’’وہ دیکھو سامنے سیپی پڑی ہے۔‘‘ یہ سن کر دوسری لڑکی آگے بڑھی اور