Jazib Qureshi
- 3 August 1940
- Karachi, Pakistan
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
اس کا لہجہ کتاب جیسا ہے
اس کا لہجہ کتاب جیسا ہے اور وہ خود گلاب جیسا ہے دھوپ ہو چاندنی ہو بارش ہو ایک چہرہ کہ خواب جیسا ہے بے
صحرا میں کوئی سایۂ دیوار تو دیکھو
صحرا میں کوئی سایۂ دیوار تو دیکھو اے ہم سفرو دھوپ کے اس پار تو دیکھو جلتا ہوں اندھیروں میں کہ چمکے کوئی چہرہ موسم
دل کے زخم جلتے ہیں دل کے زخم جلنے دو
دل کے زخم جلتے ہیں دل کے زخم جلنے دو ہم کو ٹھوکریں کھا کر آپ ہی سنبھلنے دو روشنی فصیلوں کو توڑ کر بھی
چہروں پہ لکھا ہے کوئی اپنا نہیں ملتا
چہروں پہ لکھا ہے کوئی اپنا نہیں ملتا کیا شہر ہے اک شخص بھی جھوٹا نہیں ملتا چاہت کی قبا میں تو بدن اور جلیں
میرے لہجے میں مرے زخم کی گہرائی ہے
میرے لہجے میں مرے زخم کی گہرائی ہے روشنی رات کے آنگن میں اتر آئی ہے پھر مجھے پیار کے ساحل پہ ٹھہرنا ہوگا پھر
شکستہ عکس تھا وہ یا غبار صحرا تھا
شکستہ عکس تھا وہ یا غبار صحرا تھا وہ میں نہیں تھا جو خود اپنے گھر میں رہتا تھا عجیب شرط سفر تھی مرے لئے
صحرا کی دھوپ میں بھی شجر دیکھتے رہے
صحرا کی دھوپ میں بھی شجر دیکھتے رہے کیا لوگ تھے دعا کا اثر دیکھتے رہے ہم اپنے جسم و جاں کو خزاں میں اتار
جب تمہیں یاد کیا رنج ہوا بھول گئے
جب تمہیں یاد کیا رنج ہوا بھول گئے ہم اندھیروں میں اجالے کی فضا بھول گئے تم سے بچھڑے تھے تو جینے کا چلن یاد
نیند آنکھوں میں رہے پھر بھی نہ سویا جائے
نیند آنکھوں میں رہے پھر بھی نہ سویا جائے میں وہ پتھر ہوں کہ روؤں تو نہ رویا جائے اجنبی ہے ترے خوش رنگ بدن
خواہش جاں کو آزمانا ہے
خواہش جاں کو آزمانا ہے غم پکارے تو مسکرانا ہے حسن پھر لے رہا ہے انگڑائی پیار کو پھر فریب کھانا ہے اک ترے گیسوؤں
ہم اپنے دل کی دھڑکن میں ایک تمنا لائے ہیں
ہم اپنے دل کی دھڑکن میں ایک تمنا لائے ہیں تجھ سے پیار کی باتیں کرنے دور کہیں سے آئے ہیں اپنی آنکھیں راہ گزر
جب بھی آتا ہے وہ میرے دھیان میں
جب بھی آتا ہے وہ میرے دھیان میں پھول رکھ جاتا ہے روشن دان میں گھر کے بام و در نئے لگنے لگے حسن ایسا
Sher
پتھروں کی چوٹوں سے آئنو نہ گھبراؤ
پتھروں کی چوٹوں سے آئنو نہ گھبراؤ حادثوں کے آنگن میں زندگی کو پلنے دو جاذب قریشی
دفتر کی تھکن اوڑھ کے تم جس سے ملے ہو
دفتر کی تھکن اوڑھ کے تم جس سے ملے ہو اس شخص کے تازہ لب و رخسار تو دیکھو جاذب قریشی
کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں
کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو جاذب قریشی
تیری یادوں کی چمکتی ہوئی مشعل کے سوا
تیری یادوں کی چمکتی ہوئی مشعل کے سوا میری آنکھوں میں کوئی اور اجالا ہی نہیں جاذب قریشی
دفتر کی تھکن اوڑھ کے تم جس سے ملے ہو
دفتر کی تھکن اوڑھ کے تم جس سے ملے ہو اس شخص کے تازہ لب و رخسار تو دیکھو جاذب قریشی
تیری خوشبو پیار کے لہجے میں بولے تو سہی
تیری خوشبو پیار کے لہجے میں بولے تو سہی دل کی ہر دھڑکن کو اک چہرہ نیا مل جائے گا جاذب قریشی
کچھ میرے دھڑکتے ہوئے دل نے بھی پکارا
کچھ میرے دھڑکتے ہوئے دل نے بھی پکارا کچھ آپ کو بازار میں دھوکا بھی ہوا ہے جاذب قریشی
سنہری دھوپ کا ٹکڑا ہوں لیکن
سنہری دھوپ کا ٹکڑا ہوں لیکن ترے سائے میں چلنا چاہتا ہوں جاذب قریشی
مجھ کو بڑے خلوص سے برباد کر دیا
مجھ کو بڑے خلوص سے برباد کر دیا جاذبؔ کسی نے ایک ہوس کار کے لئے جاذب قریشی
مرے پیار کا کوئی حاصل نہیں ہے
مرے پیار کا کوئی حاصل نہیں ہے وہ اک موج ہوں جس کا ساحل نہیں ہے جاذب قریشی
مرے وجود کے خوشبو نگار صحرا میں
مرے وجود کے خوشبو نگار صحرا میں وہ مل گئے ہیں تو مل کر بچھڑ بھی سکتے ہیں جاذب قریشی
مری شاعری میں چھپ کر کوئی اور بولتا ہے
مری شاعری میں چھپ کر کوئی اور بولتا ہے سر آئنہ جو دیکھوں تو وہ شخص دوسرا ہے جاذب قریشی