Tilok Chand Mehroom
- 1 July 1887-6 January 1966
- Mianwali, Punjab Province, British India
Introduction
جگن ناتھ آزاد، ان کے بیٹے نے اپنے والد کے کام یونیورسٹی آف کشمیر کے علامہ اقبال لائبریری کو دیئے.
گنج-ای-مانی، تازہ ترین اشاعت 1995 میں محروم میموریل لٹریری سوسائٹی، نئی دہلی، ہندوستان نے شائع کی تھی.
رباعیات-محروم، تازہ ترین اشاعت 1995 میں محروم میموریل لٹریری سوسائٹی، نئی دہلی، ہندوستان نے شائع کی تھی.
نیرنگ-ای-مانی، تازہ ترین ایڈیشن 1996 میں محروم میموریل لٹریری سوسائٹی، نئی دہلی، ہندوستان نے شائع کیا تھا.
کاروان-ای-وطن کو 1960 میں ہندوستان، نئی دہلی، مکتب-ای-جامیہ لمیٹڈ نے شائع کیا تھا.
شعلہ نوا کو 1965 میں ہندوستان، نئی دہلی کے شہر مکتب-ای-جامیہ لمیٹڈ نے شائع کیا تھا.
بہار-ای-تفلی کو 1965 میں ہندوستان، نئی دہلی، مکتب-ای-جامیہ لمیٹڈ نے شائع کیا تھا.
بچچن کی دنیا کو 1967 میں ہندوستان، نئی دہلی، مکتب-ای-جامیہ لمیٹڈ نے شائع کیا تھا.
مہارشی درشن کو 1937 میں ایوان-ای-ادب، لاہور نے شائع کیا تھا.
Ghazal
ستم کوئی نیا ایجاد کرنا
ستم کوئی نیا ایجاد کرنا تو مجھ کو بھی مری جاں یاد کرنا قیامت ہے دل نالاں قیامت ترا رہ رہ کے یہ فریاد کرنا
زوال حسن کو حسن نگار کیا جانے
زوال حسن کو حسن نگار کیا جانے خزاں قدم بہ قدم ہے بہار کیا جانے لکھا ہے اس کے مقدر میں اضطراب دوام قرار کیا
بدنام ہوں پر عاشق بدنام تمہارا
بدنام ہوں پر عاشق بدنام تمہارا ناکام ہوں پر طالب ناکام تمہارا میں اس کو نہ بیچوں عوض ملک سلیماں ہے ثبت سر خاتم دل
گھبرائیے کیوں زندگی بے کیف اگر ہے
گھبرائیے کیوں زندگی بے کیف اگر ہے آخر شب تاریک کا انجام سحر ہے وہ شام کی صورت ہے نہ وہ رنگ سحر ہے کس
لاکھوں ہیں دل ربا کوئی دل دار بھی تو ہو
لاکھوں ہیں دل ربا کوئی دل دار بھی تو ہو غم دے چکے بہت کوئی غم خوار بھی تو ہو فریاد میں تو میں مرے
زہے قسمت اگر تم کو ہمارا دل پسند آیا
زہے قسمت اگر تم کو ہمارا دل پسند آیا مگر یہ داغ کیوں کر اے مہ کامل پسند آیا کیا ہے قتل لیکن دیکھیے جاں
یہ کس سے آج برہم ہو گئی ہے
یہ کس سے آج برہم ہو گئی ہے کہ زلف یار پر خم ہو گئی ہے ٹپک پڑتے ہیں وقت صبح آنسو یہ عادت مثل
نگاہ اولیں کی دلستانی یاد آتی ہے
نگاہ اولیں کی دلستانی یاد آتی ہے کسی نا مہرباں کی مہربانی یاد آتی ہے قریب شاخ گل ہوتی ہے جب دستاں سرا بلبل ہمیں
غلط کی ہجر میں حاصل مجھے قرار نہیں
غلط کی ہجر میں حاصل مجھے قرار نہیں اسیر یاس ہوں پابند انتظار نہیں ہے ان کے عہد وفا سے مناسبت دل کو اسے قیام
نظر اٹھا دل ناداں یہ جستجو کیا ہے
نظر اٹھا دل ناداں یہ جستجو کیا ہے اسی کا جلوہ تو ہے اور روبرو کیا ہے کسی کی ایک نظر نے بتا دیا مجھ
باعث انبساط ہو آمد نو بہار کیا
باعث انبساط ہو آمد نو بہار کیا رنگ چمن دکھائے گا سینۂ داغدار کیا گنبد گرد باد ہے سر بہ فلک ہر اک طرف دشت
طائر دل کے لیے زلف کا جال اچھا ہے
طائر دل کے لیے زلف کا جال اچھا ہے حیلہ سازی کے لیے دانۂ خال اچھا ہے دل کے طالب نظر آتے ہیں حسیں ہر
Nazm
بادل اور تارے
ختم ہوا دن سورج ڈوبا شام ہوئی اور ابھرے تارے جگمگ جگمگ کرتے آئے نور کے ٹکڑے پیارے پیارے دور کہیں سے ٹھنڈے ٹھنڈے تیز
وقت کی پابندی
سورج کے دم قدم سے روشن جہاں ہے سارا ہے اس کی روشنی سے دل کش ہر اک نظارا سورج اگر نہ ہوتا کچھ بھی
بچوں کو نیا سال مبارک
پرانا گیا اور نیا سال آیا مبارک ہو تم کو نیا سال بچو جو اب ہاتھ میں ہے کرو فکر اس کی گیا ہاتھ سے
نور جہاں کا مزار
دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے کہتے ہیں یہ آرام گہہ نورجہاں ہے مدت ہوئی وہ شمع تہ خاک نہاں ہے
دعا
اے سنسار بنانے والے سورج کو چمکانے والے خاک سے پھول اگانے والے دریاؤں کو بہانے والے میرے خالق میرے آقا ہنستا ہنستا چاند نکالا
چھبیس جنوری
یہ دور نو مبارک فرخندہ اختری کا جمہوریت کا آغاز انجام قیصری کا کیا جاں فزا ہے جلوہ خورشید خاوری کا ہر اک شعاع رقصاں
تصویر رحمت
تری توقیر سے توقیر ہستی ہے گرو نانک تری تنویر ہر ذرے میں بستی ہے گرو نانک تری جاگیر میں عرفاں کی مستی ہے گرو
شہید بھگت سنگھ
زنداں میں شہیدوں کا وہ سردار آیا شیدائے وطن پیکر ایثار آیا ہے دار و رسن کی سرفرازی کا دن سردار بھگت سنگھ سردار آیا
پھول برساؤ شہیدان وطن کی خاک پر
جن سر افرازوں کی روحیں آج ہیں افلاک پر موت خود حیراں تھی جن کی جرات بے باک پر نقش جن کے نام ہیں اب
بارش
آ گئی ٹھنڈی ہوا برسات کی چھا گئی کالی گھٹا برسات کی اب کہاں سورج کی گرمی کا وہ جوش چھپ گیا بادل کا سنتے
آزاد ہند فوج
اے جیش سرفروش جوانان خوش نہاد سینے پہ تیرے کند ہوئی تیغ اشتداد غربت میں دی ہے تو نے شجاعت کی خوب داد اقوام دہر
خاک ہند
انجم سے بڑھ کے تیرا ہر ذرہ ضو فشاں ہے جلووں سے تیرے اب تک حسن ازل عیاں ہے انداز دل فریبی جو تجھ میں
Sher
ہے ابتدائے شام سے ظلمات کا سفر
ہے ابتدائے شام سے ظلمات کا سفر ہوتی ہے دیکھیے شب غم کی سحر کہاں تلوک چند محروم
قیامت ہے دل نالاں قیامت
قیامت ہے دل نالاں قیامت ترا رہ رہ کے یہ فریاد کرنا تلوک چند محروم
ہوں وہ برباد کہ قسمت میں نشیمن نہ قفس
ہوں وہ برباد کہ قسمت میں نشیمن نہ قفس چل دیا چھوڑ کر صیاد تہ دام مجھے تلوک چند محروم
فکر معاش و عشق بتاں یاد رفتگاں
فکر معاش و عشق بتاں یاد رفتگاں ان مشکلوں سے عہد برآئی نہ ہو سکی تلوک چند محروم
نہ علم ہے نہ زباں ہے تو کس لیے محرومؔ
نہ علم ہے نہ زباں ہے تو کس لیے محرومؔ تم اپنے آپ کو شاعر خیال کر بیٹھے تلوک چند محروم
نہ رہی بے خودی شوق میں اتنی بھی خبر
نہ رہی بے خودی شوق میں اتنی بھی خبر ہجر اچھا ہے کہ محرومؔ وصال اچھا ہے تلوک چند محروم
اے ہم نفس نہ پوچھ جوانی کا ماجرا
اے ہم نفس نہ پوچھ جوانی کا ماجرا موج نسیم تھی ادھر آئی ادھر گئی تلوک چند محروم
ہے یہ پر درد داستاں محروم
ہے یہ پر درد داستاں محرومؔ کیا سنائیں کسی کو حال اپنا تلوک چند محروم
صاف آتا ہے نظر انجام ہر آغاز کا
صاف آتا ہے نظر انجام ہر آغاز کا زندگانی موت کی تمہید ہے میرے لیے تلوک چند محروم
بظاہر گرم ہے بازار الفت
بظاہر گرم ہے بازار الفت مگر جنس وفا کم ہو گئی ہے تلوک چند محروم
اٹھانے کے قابل ہیں سب ناز تیرے
اٹھانے کے قابل ہیں سب ناز تیرے مگر ہم کہاں ناز اٹھانے کے قابل تلوک چند محروم
بعد ترک آرزو بیٹھا ہوں کیسا مطمئن
بعد ترک آرزو بیٹھا ہوں کیسا مطمئن ہو گئی آساں ہر اک مشکل بہ آسانی مری تلوک چند محروم
Rubai
جنگل کی یہ دل نشیں فضا یہ برسات
جنگل کی یہ دل نشیں فضا یہ برسات یہ نغمۂ باراں یہ ہوا یہ برسات سامان وارفتگئ شاعر کے ہیں کوئل کی یہ کوک یہ
جب کالی گھٹائیں جھوم کر آتی ہیں
جب کالی گھٹائیں جھوم کر آتی ہیں ساون کا گیت کوئلیں گاتی ہیں تب یاد میں گزری ہوئی برساتوں کی آنکھیں مری سیل اشک برساتی
قطرہ سمجھے حقیقت دریا کیا
قطرہ سمجھے حقیقت دریا کیا ذرے کو علم وسعت صحرا کیا پایا نہ سراغ ذات بے پایاں کا عقل انسان بھٹک رہی ہے کیا کیا
راز ہستی بشر کو ہو کیا معلوم
راز ہستی بشر کو ہو کیا معلوم سرگرداں عقل ہے نتیجہ معلوم با وصف ہزار علم اس کو اپنا آگا معلوم ہے نہ پیچھا معلوم
فریاد ہے کس لیے در یزداں پر
فریاد ہے کس لیے در یزداں پر الزام تراشتے ہو کیوں شیطاں پر یزداں نے کئے کبھی نہ شیطاں نے کئے انساں نے کئے ہیں
ہے نازش کائنات یہ پیکر خاک
ہے نازش کائنات یہ پیکر خاک دھوم اس نے مچا رکھی ہے زیر افلاک یہ دار فنا یہ اس کی بزم آرائی غافل انجام سے
انکار گناہ بھی کئے جاتا ہوں
انکار گناہ بھی کئے جاتا ہوں تکرار گناہ بھی کئے جاتا ہوں حاصل ہو ثواب مفت اس لالچ میں اقرار گناہ بھی کئے جاتا ہوں
ہنگامہ ترا ہی گرم ہر اک سو ہے
ہنگامہ ترا ہی گرم ہر اک سو ہے تیرے دم سے ہے جتنی ہا و ہو ہے دل سے پیہم یہی صدا اٹھتی ہے تو
کالا انسان ہو یا کوئی زرد انسان
کالا انسان ہو یا کوئی زرد انسان رنگت میں ہو یا چاند کی گرد انسان خارج انسانیت سے اس کو سمجھو انساں کا اگر نہیں
اڑتے دیکھا جو طائر پراں کو
اڑتے دیکھا جو طائر پراں کو اڑنے کی امنگ لے اڑی انساں کو گولے برسائے زمیں پر اس نے پرواز نصیب جب ہوئی ناداں کو
ہم بھول کو اپنی علم و فن سمجھے ہیں
ہم بھول کو اپنی علم و فن سمجھے ہیں غربت کے مقام کو وطن سمجھے ہیں منزل پہ پہنچ کے جھاڑ دیں گے اس کو
ظاہر میں قضا بہت ستم ڈھاتی ہے
ظاہر میں قضا بہت ستم ڈھاتی ہے جاں سن کے اجل کا نام ڈر جاتی ہے لیکن ہر موت کا نتیجہ ہے حیات ہر شام