Zia Fatehabadi
- 9 February 1913-19 August 1986
- Kapurthala, Punjab, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Zia Fatehabadi was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
لب پر دل کی بات نہ آئی
لب پر دل کی بات نہ آئی واپس بیتی رات نہ آئی خشک ہوئیں رو رو کر آنکھیں مدھ ماتی برسات نہ آئی میری شب
نظر نظر سے ملانا کوئی مذاق نہیں
نظر نظر سے ملانا کوئی مذاق نہیں ملا کے آنکھ چرانا کوئی مذاق نہیں پہاڑ کاٹ تو سکتا ہے تیشۂ فرہاد پہاڑ سر پہ اٹھانا
حسن ہے محبت ہے موسم بہاراں ہے
حسن ہے محبت ہے موسم بہاراں ہے کائنات رقصاں ہے زندگی غزل خواں ہے عشرتوں کے متلاشی غم سے کیوں گریزاں ہے تیرگی کے پردے
مرے جنوں میں مری وفا میں خلوص کی جب کمی ملے گی
مرے جنوں میں مری وفا میں خلوص کی جب کمی ملے گی چمن گرفت خزاں میں ہوگا بہار اجڑی ہوئی ملے گی جواں ہے ہمت
جنوں پہ عقل کا سایا ہے دیکھیے کیا ہو
جنوں پہ عقل کا سایا ہے دیکھیے کیا ہو ہوس نے عشق کو گھیرا ہے دیکھیے کیا ہو گئی بہار مگر آج بھی بہار کی
آنکھ سے آنسو ڈھلکا ہوتا
آنکھ سے آنسو ڈھلکا ہوتا تو پھر سورج ابھرا ہوتا کہتے کہتے غم کا فسانہ کٹتی رات سویرا ہوتا کشتی کیوں ساحل پر ڈوبی موجیں
یوں حسرتوں کی گرد میں تھا دل اٹا ہوا
یوں حسرتوں کی گرد میں تھا دل اٹا ہوا جیسے درخت سے کوئی پتا گرا ہوا ہو ہی گیا ہے نبض شناس غم جہاں سینے
دل اپنا صید تمنا ہے دیکھیے کیا ہو
دل اپنا صید تمنا ہے دیکھیے کیا ہو ہوس کو عشق کا سودا ہے دیکھیے کیا ہو کسی کے لمحۂ الفت کی یاد کیف آور
فرشتے امتحان بندگی میں ہم سے کم نکلے
فرشتے امتحان بندگی میں ہم سے کم نکلے مگر اک جرم کی پاداش میں جنت سے ہم نکلے غم دنیا و دیں ان کو نہ
گو آج اندھیرا ہے کل ہوگا چراغاں بھی
گو آج اندھیرا ہے کل ہوگا چراغاں بھی تخریب میں شامل ہے تعمیر کا ساماں بھی مظہر ترے جلووں کے مامن مری وحشت کے کہسار
رگ احساس میں نشتر ٹوٹا
رگ احساس میں نشتر ٹوٹا ہاتھ سے چھوٹ کے ساغر ٹوٹا ٹوٹنا تھا دل نازک کو نہ پوچھ کب کہاں کس لئے کیوں کر ٹوٹا
تو نے نظروں کو بچا کر اس طرح دیکھا مجھے
تو نے نظروں کو بچا کر اس طرح دیکھا مجھے کیوں نہ کر جاتا بھری محفل میں دل تنہا مجھے شاخ در شاخ اب کوئی
Nazm
یاد
وہ نغمے وہ مناظر وہ بہاریں یاد ہیں مجھ کو یہی وہ نقش ہیں جو مٹ نہیں سکتے مٹانے سے وہ راتیں اور وہ ساون
ہپی
سنا ہے کہ اسرار کھلتے تھے اگلے زمانے میں انسان پہ جب زندگی کے تو وہ شہر اور بستیوں سے نکل کر چلا جاتا تھا
Sher
میرا چاند نکلنے کو تھا
میرا چاند نکلنے کو تھا شام سے پہلے رات نہ آئی ضیا فتح آبادی
اجالوں کو ڈھونڈو سحر کو پکارو
اجالوں کو ڈھونڈو سحر کو پکارو اندھیروں میں رونے سے کیا فائدہ ہے ضیا فتح آبادی
Geet
تارے تو دیں طعنے مجھ کو چندا مجھے تڑپائے
تارے تو دیں طعنے مجھ کو چندا مجھے تڑپائے رین برہ کی سائیں سائیں کر کے روز ڈرائے بالم ہیں پردیسی سکھی رے نیند نہ