Adil Aseer Dehlvi
- 1959 - 2014
- Dehli, India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Nazm
خدا جانتا ہے
خدا کی یہ باتیں خدا جانتا ہے نکلتا ہے مشرق سے کس طرح سورج فلک پر چمکتا ہے یہ چاند کیوں کر کہاں سے سمندر
آخروٹ کا پیڑ اور ایک ناداں
ناداں کوئی اک روز جو جنگل میں گیا اخروٹ کے باغات کا منظر دیکھا ہے کتنا بڑا پیڑ تو پھل چھوٹا سا یہ سوچ کے
رکشے والا
دیکھو غریب کتنی زحمت اٹھا رہا ہے گلیوں میں بھیڑ والی رکشا چلا رہا ہے محروم ہے اگرچہ دنیا کی نعمتوں سے ہر بوجھ زندگی
اکثر میں سوچتا ہوں
کیسے بنائی تو نے یہ کائنات پیاری حیران ہو رہی ہے عقل و خرد ہماری کلیاں مہک رہی ہیں اعجاز ہے یہ تیرا خوشبو کہاں
پیارے پیارے
پڑھنا لکھنا سکھائے اچھی راہ بتائے بد سے ہمیں بچائے اچھا بچہ بنائے بھیا پیارا پیارا گھنٹی خوب بجائے بستہ بھی لٹکائے مکتب لے کر
نماز کو چلو
نماز کو جو جاؤ گے خدا کا قرب پاؤ گے کہیں گے تم کو نیک سب ملے گا تم کو پیارا رب اٹھو اٹھو نماز
پیڑ لگائیں
آؤ ہم جنگل کو بچائیں پیڑ نہ کاٹیں پیڑ اگائیں ہر دل میں احساس یہ رکھ دیں بات یہ ہر انساں کو بتائیں پیڑ نہ
میں کیا چاہتا ہوں
میں کیا چاہتا ہوں ذرا مجھ سے پوچھو یہ کہتے ہیں ابو کہ افسر بنوں میں یہ امی کی خواہش ہے ٹیچر بنوں میں یہ
جب گاڑی وقت پر آئی
سنو پیارے بچو یہ قصہ نیا مرے پیارے بھارت کے اک شہر کا وہاں ریل آتی تھی اک دیر سے یہی اس کا معمول تھا
ٹافی نامہ
اکثر ہمارے خواب میں آتی ہیں ٹافیاں کھل جائے پھر جو آنکھ ستاتی ہیں ٹافیاں تقریب گھر میں ہو کوئی اسکول کا ہو جشن موقع
ہولی
ہولی جب بھی آئے پیار کی خوشیاں لائے رنگوں کے کھیلوں میں مستی سی چھا جائے خوش ہیں دادی نانی بچوں کی نادانی پچکاری میں
بھول نہ جانا
وعدہ کیا تھا آپ نے مجھ سے یک شنبہ کو کھیر پکے گی آج ہے شنبہ یاد دلا دوں ذہن میں تازہ بات رہے گی
Sher
کاغذ تمام کلک تمام اور ہم تمام
کاغذ تمام کلک تمام اور ہم تمام پر داستان شوق ابھی ناتمام ہے عادل اسیر دہلوی
باقی ہے اب بھی ترک تمنا کی آرزو
باقی ہے اب بھی ترک تمنا کی آرزو کیونکر کہوں کہ کوئی تمنا نہیں مجھے عادل اسیر دہلوی
Rubai
سائے میں ہمالیہ کے پیاری دھرتی
سائے میں ہمالیہ کے پیاری دھرتی گہوارۂ امن ہے یہ ساری دھرتی پیغام سدا حق کا دیا ہے اس نے کس درجہ مقدس ہے ہماری
Doha
خدمت سے استاد کی رہتا ہے جو دور
خدمت سے استاد کی رہتا ہے جو دور چہرے پر اس کے نہیں اچھائی کا نور عادل اسیر دہلوی
کیا ناداں سے دوستی کیا دانا سے بیر
کیا ناداں سے دوستی کیا دانا سے بیر دونوں ایسے کام ہیں جن میں نہیں ہے خیر عادل اسیر دہلوی
Lori
لوری
نندیا تجھے بلائے خواب پری للچائے خواب میں تیرے گڑیا جاگنے والی آئے نیند نگر کی رانی ہنڈ کلھیا پکوائے راہ تکے ہے تیری دستر
Kah Mukarniyan
کوٹ پینٹ کی شان بڑھائے
کوٹ پینٹ کی شان بڑھائے سردی بھی کچھ دور بھگائے گلے میں جس کو باندھے بھائی اے سکھی مفلر نا سکھی ٹائی عادل اسیر دہلوی
جب جنگل میں بھاگے ہے وہ
جب جنگل میں بھاگے ہے وہ دوڑ میں سب سے آگے ہے وہ شیر بھی اس سے دوڑ نہ جیتا اے سکھی ہرنی نا سکھی
بارش میں وہ ناچ دکھائے
بارش میں وہ ناچ دکھائے دوڑے جھومے پر پھیلائے چڑیا گھر میں جس کا شور اے سکھی کوئل نا سکھی مور عادل اسیر دہلوی
نرم ملائم جی للچائے
نرم ملائم جی للچائے منہ میں میرے پانی آئے دیکھ کے اس کا پیارا جلوہ اے سکھی لڈو نا سکھی حلوہ عادل اسیر دہلوی
میں جو کروں وہ کر کے دکھائے
میں جو کروں وہ کر کے دکھائے نقل اتارے شور مچائے اچھلے کودے باہر اندر اے سکھی بچہ نا سکھی بندر عادل اسیر دہلوی
دیکھوں تو مرا جی للچائے
دیکھوں تو مرا جی للچائے نئے رنگ اور سواد میں آئے ناریل چاکلیٹ آم اور کافی اے سکھی بسکٹ نا سکھی ٹافی عادل اسیر دہلوی
میٹھی چیزیں کھائیں گے ہم
میٹھی چیزیں کھائیں گے ہم نئے نئے کپڑے لائیں گے ہم جب بھی ہوگی اس کی دید اے سکھی میلہ نا سکھی عید عادل اسیر
موسیقی کا ماہر بھی تھا
موسیقی کا ماہر بھی تھا صوفی بھی تھا شاعر بھی تھا کوئی اس کا نام تو بوجھو اے سکھی غالب نا سکھی خسروؔ عادل اسیر
خوب ہرے پتوں کی سبزی
خوب ہرے پتوں کی سبزی خون بڑھانے والی سبزی شوق سے کھائے ہر اک بالک اے سکھی شلجم نا سکھی پالک عادل اسیر دہلوی
پیڑوں پر بھی وہ چڑھ جائے
پیڑوں پر بھی وہ چڑھ جائے شہد کا چھتا توڑ کے کھائے بھاتے نہیں ہیں اس کو آلو اے سکھی بندر نا سکھی بھالو عادل
کھیت میں اپجے جڑ کہلائے
کھیت میں اپجے جڑ کہلائے بچہ بوڑھا شوق سے کھائے گھر میں وہ آتی ہے اکثر اے سکھی مولی نا سکھی گاجر عادل اسیر دہلوی
تہذیبوں کی شان ہے اس میں
تہذیبوں کی شان ہے اس میں سارا ہندوستان ہے اس میں دنیا بھر میں جس کی خوشبو اے سکھی انگلش نا سکھی اردو عادل اسیر
Paheli
قلم
مجھ سے بڑھی ہے علم کی دولت دیکھنے میں ہوں میں بے قیمت جاہل کو بے زاری مجھ سے عالم کی ہے یاری مجھ سے
روپیہ
دنیا میری دیوانی ہے صورت جانی پہچانی ہے بن پیروں کے چلتا ہوں میں کاغذ کا اک ٹکڑا ہوں میں رنگ برنگی صورت میری سب
چمگادڑ
اندھا تو ہے لیکن ہے وہ اڑنے والا تاریکی میں ہر سمت کو مڑنے والا پنچھی نہیں کہتا کوئی پھر بھی جس کو کیا نام
موم بتی
راتوں کو دکھ سہتی ہوں میں دن میں غافل رہتی ہوں میں روشن مجھ سے ڈیرا ڈیرا دیکھ کے مجھ کو بھاگے اندھیرا محفل میں
قلفی
بہت میٹھی ہوں میں بہت خوب ہوں میں ہر اک بچے بچی کو مرغوب ہوں میں سفیدی مری دودھ سے بھی زیادہ ہے اوڑھا ہوا