Gulzar
- 18 August 1934
- Dina, Punjab, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
شام سے آنکھ میں نمی سی ہے آج پھر آپ کی کمی سی ہے دفن کر دو ہمیں کہ سانس آئے نبض کچھ دیر سے
دن کچھ ایسے گزارتا ہے کوئی
دن کچھ ایسے گزارتا ہے کوئی جیسے احساں اتارتا ہے کوئی دل میں کچھ یوں سنبھالتا ہوں غم جیسے زیور سنبھالتا ہے کوئی آئنہ دیکھ
زندگی یوں ہوئی بسر تنہا
زندگی یوں ہوئی بسر تنہا قافلہ ساتھ اور سفر تنہا اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں عمر گزری ہے اس قدر تنہا رات بھر باتیں
ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے
ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے جس کی آواز میں سلوٹ ہو نگاہوں میں شکن
درد ہلکا ہے سانس بھاری ہے
درد ہلکا ہے سانس بھاری ہے جئے جانے کی رسم جاری ہے آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے آپ کے ساتھ ہی گزاری ہے
بیتے رشتے تلاش کرتی ہے
بیتے رشتے تلاش کرتی ہے خوشبو غنچے تلاش کرتی ہے جب گزرتی ہے اس گلی سے صبا خط کے پرزے تلاش کرتی ہے اپنے ماضی
خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں
خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں ایک پرانا خط کھولا انجانے میں شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں چاند نے کتنی دیر لگا دی
ایک پرواز دکھائی دی ہے
ایک پرواز دکھائی دی ہے تیری آواز سنائی دی ہے صرف اک صفحہ پلٹ کر اس نے ساری باتوں کی صفائی دی ہے پھر وہیں
ایسا خاموش تو منظر نہ فنا کا ہوتا
ایسا خاموش تو منظر نہ فنا کا ہوتا میری تصویر بھی گرتی تو چھناکا ہوتا یوں بھی اک بار تو ہوتا کہ سمندر بہتا کوئی
جب بھی یہ دل اداس ہوتا ہے
جب بھی یہ دل اداس ہوتا ہے جانے کون آس پاس ہوتا ہے آنکھیں پہچانتی ہیں آنکھوں کو درد چہرہ شناس ہوتا ہے گو برستی
وہ خط کے پرزے اڑا رہا تھا
وہ خط کے پرزے اڑا رہا تھا ہواؤں کا رخ دکھا رہا تھا بتاؤں کیسے وہ بہتا دریا جب آ رہا تھا تو جا رہا
ہم تو کتنوں کو مہ جبیں کہتے
ہم تو کتنوں کو مہ جبیں کہتے آپ ہیں اس لیے نہیں کہتے چاند ہوتا نہ آسماں پہ اگر ہم کسے آپ سا حسیں کہتے
Nazm
کتابیں
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے بڑی حسرت سے تکتی ہیں مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا
لکڑی کی کاٹھی
لکڑی کی کاٹھی کاٹھی پہ گھوڑا گھوڑے کی دم پہ جو مارا ہتھوڑا دوڑا کے اٹھا دم گھوڑا دوڑا دوڑا دوڑا گھوڑا پہنچا چوک میں
عادت
سانس لینا بھی کیسی عادت ہے جئے جانا بھی کیا روایت ہے کوئی آہٹ نہیں بدن میں کہیں کوئی سایہ نہیں ہے آنکھوں میں پاؤں
اسکیچ
یاد ہے اک دن میری میز پہ بیٹھے بیٹھے سگریٹ کی ڈبیہ پر تم نے ایک اسکیچ بنایا تھا آ کر دیکھو اس پودے پر
برف پگھلے گی
برف پگھلے گی جب پہاڑوں سے اور وادی سے کہرا سمٹے گا بیج انگڑائی لے کے جاگیں گے اپنی السائی آنکھیں کھولیں گے سبزہ بہہ
اکیلے
کس قدر سیدھا، سہل، صاف ہے رستہ دیکھو نہ کسی شاخ کا سایہ ہے، نہ دیوار کی ٹیک نہ کسی آنکھ کی آہٹ، نہ کسی
الاؤ
رات بھر سرد ہوا چلتی رہی رات بھر ہم نے الاؤ تاپا میں نے ماضی سے کئی خشک سی شاخیں کاٹیں تم نے بھی گزرے
دل میں ٹھہر گئے ہیں ایسے غم
دل میں ایسے ٹھہر گئے ہیں غم جیسے جنگل میں شام کے سائے جاتے جاتے سہم کے رک جائیں مر کے دیکھیں اداس راہوں پر
ڈائری
نہ جانے کس کی یہ ڈائری ہے نہ نام ہے، نہ پتہ ہے کوئی ”ہر ایک کروٹ میں یاد کرتا ہوں تم کو لیکن یہ
دیکھو آہستہ چلو
دیکھو آہستہ چلو اور بھی آہستہ ذرا دیکھنا سوچ سنبھل کر ذرا پاؤں رکھنا زور سے بج نہ اٹھے پیروں کی آواز کہیں کانچ کے
کرچیں
ٹکڑا اک نظم کا دن بھر میری سانسوں میں سرکتا ہی رہا لب پہ آیا تو زباں کٹنے لگی دانت سے پکڑا تو لب چھلنے
غالب
بلی ماراں کے محلے کی وہ پیچیدہ دلیلوں کی سی گلیاں سامنے ٹال کی نکڑ پہ بٹیروں کے قصیدے گڑگڑاتی ہوئی پان کی پیکوں میں
Sher
سہما سہما ڈرا سا رہتا ہے جانے کیوں جی بھرا سا رہتا ہے گلزار
خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں ایک پرانا خط کھولا انجانے میں گلزار
دل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں گلزار
ہم نے اکثر تمہاری راہوں میں رک کر اپنا ہی انتظار کیا گلزار
Short stories
ادھا
سب اسے ’’ادھا‘‘ کہہ کے بلاتے تھے۔ پورا کیا، پونا کیا، بس ادھا۔ قد کا بونا جو تھا۔ پتا نہیں کس نے نام رکھا تھا۔
سانجھ
لالہ جی کو یہ بات کھل گئی کہ بڑھیا (لالائن) نے بال کٹوا دئیے اور ان سے پوچھا بھی نہیں۔ پچھلے مہینے ان کی بہو