Afzal Ahmed Syed
- 28 May 1946
- Ghazipur, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
دعا کی راکھ پہ مرمر کا عطرداں اس کا
دعا کی راکھ پہ مرمر کا عطرداں اس کا گزیدگی کے لیے دست مہرباں اس کا گہن کے روز وہ داغی ہوئی جبیں اس کی
کوئی نہ حرف نوید و خبر کہا اس نے
کوئی نہ حرف نوید و خبر کہا اس نے وہی فسانۂ آشفتہ تر کہا اس نے شراکت خس و شعلہ ہے کاروبار جنوں زیاں کدے
کبھی نہ خود کو بد اندیش دشت و در رکھا
کبھی نہ خود کو بد اندیش دشت و در رکھا اتر کے چاہ میں پاتال کا سفر رکھا یہی بہت تھے مجھے نان و آب
یہ نہر آب بھی اس کی ہے ملک شام اس کا
یہ نہر آب بھی اس کی ہے ملک شام اس کا جو حشر مجھ پہ بپا ہے وہ اہتمام اس کا سپاہ تازہ بھی اس
کچھ اور رنگ میں ترتیب خشک و تر کرتا
کچھ اور رنگ میں ترتیب خشک و تر کرتا زمیں بچھا کے ہوا اوڑھ کے بسر کرتا گل و شگفت کو آپس میں دسترس دیتا
روشن وہ دل پہ میرے دل آزار سے ہوا
روشن وہ دل پہ میرے دل آزار سے ہوا اک معرکہ جو حیرت و زنگار سے ہوا جب نخل آرزو پہ خزاں ابتلا ہوئی میں
گرا تو گر کے سر خاک ابتذال آیا
گرا تو گر کے سر خاک ابتذال آیا میں تیغ تیز تھا لیکن مجھے زوال آیا عجب ہوا کہ ستارہ شناس سے مل کر شکست
بہت نہ حوصلۂ عز و جاہ مجھ سے ہوا
بہت نہ حوصلۂ عز و جاہ مجھ سے ہوا فقط فراز نگین و نگاہ مجھ سے ہوا چراغ شب نے مجھے اپنے خواب میں دیکھا
ستم کی تیغ پہ یہ دست بے نیام رکھا
ستم کی تیغ پہ یہ دست بے نیام رکھا گل شکست سر شاخ انتقام رکھا میں دل کو اس کی تغافل سرا سے لے آیا
اک شام یہ سفاک و بد اندیش جلا دے
اک شام یہ سفاک و بد اندیش جلا دے شاید کہ مجھے شعلۂ در پیش جلا دے اس دل کو کسی دست ادا سنج میں
ہوا ہے قطع مرا دست معجزہ تجھ پہ
ہوا ہے قطع مرا دست معجزہ تجھ پہ گیاہ زرد بہت ہے یہ سانحہ تجھ پہ میں چاہتا ہوں مجھے مشعلوں کے ساتھ جلا کشادہ
سحاب سبز نہ طاؤس نیلمیں لایا
سحاب سبز نہ طاؤس نیلمیں لایا وہ شخص لوٹ کے اک اور سر زمیں لایا عطا اسی کی ہے یہ شہد و شور کی توفیق
Nazm
اگر انہیں معلوم ہو جائے
وہ زندگی کو ڈراتے ہیں موت کو رشوت دیتے ہیں اور اس کی آنکھ پر پٹی باندھ دیتے ہیں وہ ہمیں تحفے میں خنجر بھیجتے
میں ڈرتا ہوں
میں ڈرتا ہوں اپنے پاس کی چیزوں کو چھو کر شاعری بنا دینے سے روٹی کو میں نے چھوا اور بھوک شاعری بن گئی انگلی
شاعری میں نے ایجاد کی
کاغذ مراکشیوں نے ایجاد کیا حروف فونیشیوں نے شاعری میں نے ایجاد کی قبر کھودنے والے نے تندور ایجاد کیا تندور پر قبضہ کرنے والوں
تم خوب صورت دائروں میں رہتی ہو
تم خوب صورت دائروں میں رہتی ہو تمہارے بالوں کو ایک مدور پن فرض شناسی سے تھامے ہوئے ہے ایک بیش قیمت زنجیر تمہاری گردن
آخری دلیل
تمہاری محبت اب پہلے سے زیادہ انصاف چاہتی ہے صبح بارش ہو رہی تھی جو تمہیں اداس کر دیتی ہے اس منظر کو لا زوال
ایک لڑکی
لذت کی انتہا پر اس کی سسکیاں دنیا کے تمام قومی ترانوں سے زیادہ موسیقی رکھتی ہیں جنسی عمل کے دوران وہ کسی بھی ملکۂ
جس کا کوئی انتظار نہ کر رہا ہو
جس کا کوئی انتظار نہ کر رہا ہو اسے نہیں جانا چاہیئے واپس آخری دروازہ بند ہونے سے پہلے جس کا کوئی انتظار نہ کر
ہمیں بھول جانا چاہیئے
اس اینٹ کو بھول جانا چاہیئے جس کے نیچے ہمارے گھر کی چابی ہے جو ایک خواب میں ٹوٹ گیا ہمیں بھول جانا چاہیئے اس
ہم کسی سے پوچھے بغیر زندہ رہتے ہیں
خنجر کے پھل پر ایک طرف تمہارا نام لکھا ہے اور دوسری طرف میرا جنہیں پڑھنا آتا ہے ہمیں بتاتے ہیں ہمیں قتل کر دیا
کیا سب سے اچھی خریدار ہے
لکڑی کے بنے ہوئے آدمی پانی میں نہیں ڈوبتے اور دیواروں سے ٹانگے جا سکتے ہیں شاید انہیں یاد ہوتا ہے کہ آرا کیا ہے
جنگل کے پاس ایک عورت
نیند کے پاس ایک رات ہے میرے پاس ایک کہانی ہے جنگل کے پاس ایک عورت تھی عورت بچہ پیدا کرنے کے درد سے مر
زندگی ہمارے لیے کتنا آسان کر دی گئی ہے
زندگی ہمارے لیے کتنا آسان کر دی گئی ہے ہم کسی بھی رعایتی فروخت میں کتابیں کپڑے جوتے حاصل کر سکتے ہیں جیسا کہ گندم
Sher
یہی ہے وصل دل کم معاملہ کے لیے
یہی ہے وصل دل کم معاملہ کے لیے کہ آئنے میں وہ خورشید خد و خال آیا افضال احمد سید
کمان شاخ سے گل کس ہدف کو جاتے ہیں
کمان شاخ سے گل کس ہدف کو جاتے ہیں نشیب خاک میں جا کر مجھے خیال آیا افضال احمد سید
میں دل کو اس کی تغافل سرا سے لے آیا
میں دل کو اس کی تغافل سرا سے لے آیا اور اپنے خانۂ وحشت میں زیر دام رکھا افضال احمد سید
یہی بہت تھے مجھے نان و آب و شمع و گل
یہی بہت تھے مجھے نان و آب و شمع و گل سفر نژاد تھا اسباب مختصر رکھا افضال احمد سید
اسے عجب تھا غرور شگفت رخساری
اسے عجب تھا غرور شگفت رخساری بہار گل کو بہت بے ہنر کہا اس نے افضال احمد سید
کتاب خاک پڑھی زلزلے کی رات اس نے
کتاب خاک پڑھی زلزلے کی رات اس نے شگفت گل کے زمانے میں وہ یقیں لایا افضال احمد سید
عطا اسی کی ہے یہ شہد و شور کی توفیق
عطا اسی کی ہے یہ شہد و شور کی توفیق وہی گلیم میں یہ نان بے جویں لایا افضال احمد سید
اس دل کو کسی دست ادا سنج میں رکھنا
اس دل کو کسی دست ادا سنج میں رکھنا ممکن ہے یہ میزان کم و بیش جلا دے افضال احمد سید
کتاب عمر سے سب حرف اڑ گئے میرے
کتاب عمر سے سب حرف اڑ گئے میرے کہ مجھ اسیر کو ہونا ہے ہم کلام اس کا افضال احمد سید
میں چاہتا ہوں مجھے مشعلوں کے ساتھ جلا
میں چاہتا ہوں مجھے مشعلوں کے ساتھ جلا کشادہ تر ہے اگر خیمۂ ہوا تجھ پہ افضال احمد سید
کمان خانۂ افلاک کے مقابل بھی
کمان خانۂ افلاک کے مقابل بھی میں اس سے اور وہ پھر کج کلاہ مجھ سے ہوا افضال احمد سید
کمند غیر میں سب اسپ و گوسفند اس کے
کمند غیر میں سب اسپ و گوسفند اس کے نشیب خاک میں خفتہ ستارہ داں اس کا افضال احمد سید