Raees Warsi
- 1 March 1963
- Karachi, Sindh, Pakistan
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
میں ایک کانچ کا پیکر وہ شخص پتھر تھا
میں ایک کانچ کا پیکر وہ شخص پتھر تھا سو پاش پاش تو ہونا مرا مقدر تھا تمام رات سحر کی دعائیں مانگی تھیں کھلی
اب تو جو منظر شاداب نظر آتا ہے
اب تو جو منظر شاداب نظر آتا ہے ایسا لگتا ہے کوئی خواب نظر آتا ہے اس حسیں شہر میں ہر سمت ہے لوگوں کا
اسے بھلا کے بھی یادوں کے سلسلے نہ گئے
اسے بھلا کے بھی یادوں کے سلسلے نہ گئے دل تباہ ترے اس سے رابطے نہ گئے کتاب زیست کے عنواں بدل گئے لیکن نصاب
خود آگہی کا عجب روگ لگ گیا ہے مجھے
خود آگہی کا عجب روگ لگ گیا ہے مجھے کہ اپنی ذات پہ دھوکہ ترا ہوا ہے مجھے پکارتی ہے ہواؤں کی نغمگی تجھ کو
جو آ سکو تو بتاؤ کہ انتظار کریں
جو آ سکو تو بتاؤ کہ انتظار کریں وگرنہ اپنے مقدر پہ اعتبار کریں چراغ خانۂ امید ہے ابھی روشن ابھی نہ ترک تعلق کو
جو دیکھو تو وہ چہرہ اجنبی ہے
جو دیکھو تو وہ چہرہ اجنبی ہے اگر سوچو تو وجہ زندگی ہے مجھے ہے اعتراف جرم الفت مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے
یہ مرحلے بھی محبت کے باب میں آئے
یہ مرحلے بھی محبت کے باب میں آئے بچھڑ گئے تھے جو ہم سے وہ خواب میں آئے وہ جس کی راہ میں ہم نے
اک لمحہ وصال تھا واپس نہ آ سکا
اک لمحہ وصال تھا واپس نہ آ سکا وہ وقت کی مثال تھا واپس نہ آ سکا ہر اک کو اپنا حال سنانے سے فائدہ
جبہ کسی کا اور نہ دستار دیکھنا
جبہ کسی کا اور نہ دستار دیکھنا ہے کون مفلسوں کا طرف دار دیکھنا طرز سخن نہ شوخئ گفتار دیکھنا انسانیت کا کون ہے غم
آوارہ بوئے گل کی طرح ہیں چمن سے دور
آوارہ بوئے گل کی طرح ہیں چمن سے دور لغزیدہ پا نہیں ہیں مگر ہم وطن سے دور تاریک راستوں میں بچھاتے ہیں روشنی ایسے
تیرے پیکر سی کوئی مورت بنا لی جائے گی
تیرے پیکر سی کوئی مورت بنا لی جائے گی دل کے بہلانے کی یہ صورت نکالی جائے گی کون کہہ سکتا تھا یہ قوس قزح
Sher
سمندروں کے سفر میں وہ پیاس کا عالم کہ فرش آب پہ اک کربلا کا منظر تھا رئیس وارثی
میں چاند اور ستاروں کے گیت گاتا رہا مرے ہی گھر سے اندھیروں کے قافلے نہ گئے رئیس وارثی
مسیحائی نہ تم سے ہو سکے گی ہمارا درد الفت دائمی ہے رئیس وارثی
شاید میں اس کو دیکھ کے سب کو بھلا ہی دوں اس کو یہ احتمال تھا واپس نہ آ سکا رئیس وارثی
ہونے لگتا ہے ترے قرب کا احساس مجھے چودھویں شب کو جو مہتاب نظر آتا ہے رئیس وارثی
کاغذی پھولوں سے جب مانوس ہوں گی تتلیاں عاشقی کی رسم دنیا سے اٹھا لی جائے گی رئیس وارثی
میں اپنے نام سے ناآشنا سہی لیکن تمہارے نام سے ہر شخص جانتا ہے مجھے رئیس وارثی
تمہارے حسن نظر سے ہیں معتبر ہم بھی جو ہم کسی نگہ انتخاب میں آئے رئیس وارثی
جو درس دے رہے ہیں فروغ کتاب کا کتنے وہی ہیں علم سے بیزار دیکھنا رئیس وارثی
یہ گل رخوں کا ہے شیوہ بہ نام ناز و ادا نگاہ عاشق بسمل کو اشک بار کریں رئیس وارثی
وہ لوگ جن کا خون ہے رنگ بہار میں رکھا گیا ہے ان کو ہی صحن چمن سے دور رئیس وارثی