Asma Faraz
- Pakistan
Introduction
Ghazal
دل مضطر کا مدعا کہ دوں
دل مضطر کا مدعا کہ دوں درد کا سارا ماجرا کے دوں تو میرے حال سے نہیں واقف کس طرح تجھ کو آشنا کہہ دوں
دریا کے پاس کوئی کنارہ نہیں رہا
دریا کے پاس کوئی کنارہ نہیں رہا قسمت کا ساتھ میرے ستارہ نہیں رہا اپنوں کا ایک ہجوم تھا ساحل پہ مستقل ڈوبتے تو تنکے
دل میں رہ جاتے ہیں سب لوگ بھلانے والے
دل میں رہ جاتے ہیں سب لوگ بھلانے والے ہم ہیں ہر حال میں رشتوں کو نبھانے والے ہم نے تا عمر تجھے من میں
تجھ کو فرصت سے سوچتا ہے کوئی
تجھ کو فرصت سے سوچتا ہے کوئی اس طرح تجھ کو چاہتا ہے کوئی تو نہیں ہے مگر ہر اک رہ میں آج بھی تجھ
عاجزانہ مزاج رکھتے ہیں
عاجزانہ مزاج رکھتے ہیں ہم دلوں پر بھی راج رکھتے ہیں سر بلندی ہو جس میں آبا کی ایسے رسم و رواج رکھتے ہیں مار
تجھ سے یوں دوستی نبھاؤں گی
تجھ سے یوں دوستی نبھاؤں گی اب کبھی لوٹ کر نہ آؤں گی تو نے چاہی ہے میری بربادی اب میں آباد ہو نہ پاؤں
تجھ کو لگتا ہے عارضی دکھ ہے
تجھ کو لگتا ہے عارضی دکھ ہے اس کے چہرے پہ دائمی دکھ ہے تیرگی سے تو اس کو رغبت ہے اس کی آنکھوں کی
اس سے ہی چلتی ہے سانسوں کی روانی لوگو
اس سے ہی چلتی ہے سانسوں کی روانی لوگو مجھ سے مت چھینو مری آنکھ کا پانی لوگو پارساؤی کی گواہی تو نہ مانگو اس
خزاں کے دور میں کِھلتی بہار میرے لیے
خزاں کے دور میں کِھلتی بہار میرے لیے خدا نے بھیجا ہے اک غم گسار میرے لیے وہ کہہ رہا ہے میں اس کو عزیز
یہ نار محبت کہیں تجھ کو نہ جلا دے
یہ نار محبت کہیں تجھ کو نہ جلا دے یادوں کی دبی راکھ کو ہرگز نہ ہوا دے لازم نہیں ہر بار تجھے ہم ہوں
زندہ رہنے کو بھی لازم ہے سہارا کوئی
زندہ رہنے کو بھی لازم ہے سہارا کوئی کاش مل جائے غم ہجر کا مارا کوئی ہے تیری ذات سے مجھکو وہی نسبت جیسے چاند
Nazm
زمانے بھر کی نظر میں جاناں
زمانے بھر کی نظر میں جاناں ہمارے تم ہی تو چارہ گر ہو تمہارا بنتا ہے جان لینا کہ ان لبوں پہ جو اک ہنسی
رات کا پچھلا پہر ہے جاناں
رات کا پچھلا پہر ہے جاناں تیری یاد کے بستر پر ہم تنہا ،گم سم ، آنکھیں موندے تجھ کو ہی تو سوچ رہے ہیں
Sher
لازم نہیں ہر بار تجھے ہم ہوں میسر
لازم نہیں ہر بار تجھے ہم ہوں میسر ممکن ہے تو اس بارہ ہمیں سچ میں گنوا دے عاصمہ فراز
تو میرے حال سے نہیں واقف
تو میرے حال سے نہیں واقف کس طرح تجھ کو آشنا کہہ دوں عاصمہ فراز
تجھ کو بھلا کہ ہم بھی زمانے کے ہوگئے
تجھ کو بھلا کہ ہم بھی زمانے کے ہوگئے اب پاس اپنے کوئی بھی چارہ نہیں عاصمہ فراز
یادوں کا تیری چھن گیا جب اختیار بھی
یادوں کا تیری چھن گیا جب اختیار بھی کچھ بھی تو میرے یار ہمارا نہیں رہا عاصمہ فراز
دامن میں چند یادیں ہیں گزرے دنوں کی بس
دامن میں چند یادیں ہیں گزرے دنوں کی بس خوش بختیوں کا کوئی اشارہ نہیں رہا عاصمہ فراز
تذکرہ کرکے تیرا شعروں میں
تذکرہ کرکے تیرا شعروں میں ساتھ یوں تجھ کو آج رکھتے ہیں عاصمہ فراز
مار کر چھاؤں میں نہیں ڈالا
مار کر چھاؤں میں نہیں ڈالا .ہائے اپنوں کی بے حسی دکھ ہے عاصمہ فراز
درِ بتول کی ادنٰی سی اک کنیز ہوں میں
درِ بتول کی ادنٰی سی اک کنیز ہوں میں .یہی حوالہ ہے صد افتخار میرے لیے عاصمہ فراز
کڑا ہے وقت تو نظر یں چرا کے گزرا ہے
کڑا ہے وقت تو نظر یں چرا کے گزرا ہے جو کر رہا تھا زمانہ نثار میرے لیے عاصمہ فراز
سوچتی ہوں کہ تیرے پہلو میں جو بیٹھا ہوگا
سوچتی ہوں کہ تیرے پہلو میں جو بیٹھا ہوگا کیسا ہوگا وہ پری وش وہ تمہارا کوئی عاصمہ فراز
ہم محبت میں بھی قائل رہے یکتائی کے
ہم محبت میں بھی قائل رہے یکتائی کے ہم نے رکھا ہی نہیں دل میں دوبارہ کوئی عاصمہ فراز