Meeraji
- 25 May 1912-3 November 1949
- Punjab, British India
Introduction
Ghazal
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا کیا بھولا کیسے بھولا کیوں پوچھتے
چاند ستارے قید ہیں سارے وقت کے بندی خانے میں
چاند ستارے قید ہیں سارے وقت کے بندی خانے میں لیکن میں آزاد ہوں ساقی چھوٹے سے پیمانے میں عمر ہے فانی عمر ہے باقی
جیسے ہوتی آئی ہے ویسے بسر ہو جائے گی
جیسے ہوتی آئی ہے ویسے بسر ہو جائے گی زندگی اب مختصر سے مختصر ہو جائے گی گیسوئے عکس شب فرقت پریشاں اب بھی ہے
زندگی ایک اذیت ہے مجھے
زندگی ایک اذیت ہے مجھے تجھ سے ملنے کی ضرورت ہے مجھے دل میں ہر لحظہ ہے صرف ایک خیال تجھ سے کس درجہ محبت
ہنسو تو ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہوگا
ہنسو تو ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہوگا چپکے چپکے بہا کر آنسو دل کے دکھ کو دھونا ہوگا بیرن ریت بڑی دنیا
غم کے بھروسے کیا کچھ چھوڑا کیا اب تم سے بیان کریں
غم کے بھروسے کیا کچھ چھوڑا کیا اب تم سے بیان کریں غم بھی راس نہ آیا دل کو اور ہی کچھ سامان کریں کرنے
گناہوں سے نشوونما پا گیا دل
گناہوں سے نشوونما پا گیا دل در پختہ کاری پہ پہنچا گیا دل اگر زندگی مختصر تھی تو پھر کیا اسی میں بہت عیش کرتا
ڈھب دیکھے تو ہم نے جانا دل میں دھن بھی سمائی ہے
ڈھب دیکھے تو ہم نے جانا دل میں دھن بھی سمائی ہے میراجیؔ دانا تو نہیں ہے عاشق ہے سودائی ہے صبح سویرے کون سی
دل محو جمال ہو گیا ہے
دل محو جمال ہو گیا ہے یا صرف خیال ہو گیا ہے اب اپنا یہ حال ہو گیا ہے جینا بھی محال ہو گیا ہے
دیدۂ اشک بار ہے اپنا
دیدۂ اشک بار ہے اپنا اور دل بے قرار ہے اپنا رشک صحرا ہے گھر کی ویرانی یہی رنگ بہار ہے اپنا چشم گریاں سے
Nazm
سمندر کا بلاوا
یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں اب آؤ کہ برسوں سے تم کو بلاتے بلاتے مرے دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے کبھی ایک پل
شراب
فضول ہے یہ گفتگو ہے نگاہ دیکھتی ہے طاق میں رکھی ہیں چند بوتلیں چلو چلیں چلو چلیں جہاں ہمیں خیال ہی نہ آئے زندگی
کلرک کا نغمۂ محبت
سب رات مری سپنوں میں گزر جاتی ہے اور میں سوتا ہوں پھر صبح کی دیوی آتی ہے اپنے بستر سے اٹھتا ہوں منہ دھوتا
یعنی
میں سوچتا ہوں اک نظم لکھوں لیکن اس میں کیا بات کہوں اک بات میں بھی سو باتیں ہیں کہیں جیتیں ہیں کہیں ماتیں ہیں
مجھے گھر یاد آتا ہے
سمٹ کر کس لیے نقطہ نہیں بنتی زمیں کہہ دو یہ پھیلا آسماں اس وقت کیوں دل کو لبھاتا تھا ہر اک سمت اب انوکھے
یگانگت
زمانے میں کوئی برائی نہیں ہے فقط اک تسلسل کا جھولا رواں ہے یہ میں کہہ رہا ہوں میں کوئی برائی نہیں ہوں زمانہ نہیں
دور کنارا
پھیلی دھرتی کے سینے پہ جنگل بھی ہیں لہلہاتے ہوئے اور دریا بھی ہیں دور جاتے ہوئے اور پربت بھی ہیں اپنی چپ میں مگن
ایک تھی عورت
یہ جی چاہتا ہے کہ تم ایک ننھی سی لڑکی ہو اور ہم تمہیں گود میں لے کے اپنی بٹھا لیں یوں ہی چیخو چلاؤ
جاتری
ایک آیا گیا دوسرا آئے گا دیر سے دیکھتا ہوں یوں ہی رات اس کی گزر جائے گی میں کھڑا ہوں یہاں کس لیے مجھ
بغاوت نفس
زندگی محبوب ہے پھر بھی دعائیں موت کی مانگتا ہے دل مرا دن رات کیوں قسمت غم گیں کے ہونٹوں پر کبھی آ نہیں سکتی
رقیب
تمہی کو آج مرے روبرو بھی ہونا تھا اور ایسے رنگ میں جس کا کبھی گماں بھی نہ ہو نگاہ تند غضب ناک دل کلام
میں جنسی کھیل کو صرف اک تن آسانی سمجھتا ہوں
میں جنسی کھیل کو صرف اک تن آسانی سمجھتا ہوں ذریعہ اور ہے معبود سے ملنے کا دنیا میں تخیل کا بڑا ساگر تصور کے
Sher
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا میراجی
میرؔ ملے تھے میراجیؔ سے باتوں سے ہم جان گئے
میرؔ ملے تھے میراجیؔ سے باتوں سے ہم جان گئے فیض کا چشمہ جاری ہے حفظ ان کا بھی دیوان کریں میراجی
غم کے بھروسے کیا کچھ چھوڑا کیا اب تم سے بیان کریں
غم کے بھروسے کیا کچھ چھوڑا کیا اب تم سے بیان کریں غم بھی راس آیا دل کو اور ہی کچھ سامان کریں میراجی
زندگی ایک اذیت ہے مجھے
زندگی ایک اذیت ہے مجھے تجھ سے ملنے کی ضرورت ہے مجھے میراجی
اب یوں ہی عمر گزر جائے گی
اب یوں ہی عمر گزر جائے گی اب یہی بات غنیمت ہے مجھے میراجی
اپنی بیتی کیسے سنائیں مد مستی کی باتیں ہیں
اپنی بیتی کیسے سنائیں مد مستی کی باتیں ہیں میراجیؔ کا جیون بیتا پاس کے اک مے خانے میں میراجی
ہنسو تو ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہوگا
ہنسو تو ساتھ ہنسے گی دنیا بیٹھ اکیلے رونا ہوگا چپکے چپکے بہا کر آنسو دل کے دکھ کو دھونا ہوگا میراجی
جیسے ہوتی آئی ہے ویسے بسر ہو جائے گی
جیسے ہوتی آئی ہے ویسے بسر ہو جائے گی زندگی اب مختصر سے مختصر ہو جائے گی میراجی
سانس کے آغوش میں ہر سانس کا نغمہ یہ ہے
سانس کے آغوش میں ہر سانس کا نغمہ یہ ہے ایک دن امید ہے ان کو خبر ہو جائے گی میراجی
پہلے بھی مصیبتیں کچھ آئیں
پہلے بھی مصیبتیں کچھ آئیں پر اب کے کمال ہو گیا ہے میراجی
اب اپنا یہ حال ہو گیا ہے
اب اپنا یہ حال ہو گیا ہے جینا بھی محال ہو گیا ہے میراجی
گناہوں سے نشوونما پا گیا دل
گناہوں سے نشوونما پا گیا دل در پختہ کاری پہ پہنچا گیا دل میراجی
Geet
جب آتے ہوئے روکا نہ تمہیں پھر جاتے ہوئے کیوں روکیں گے
جب جھونکا ہوا کا آتا ہے پتی پتی کو ہلاتا ہے اور جب پھلواری جھوم اٹھے جیسے آتا ہے جاتا ہے جب آتے ہوئے روکا
جب جانیں جب آؤ
جب جانیں جب آؤ سانس کی ڈوری جھول رہی ہے دھیان سہارے سونے سونے دن کے رین کے سپنے سارے سپنے میں کوئی جال بچھا
تم کون ہو یہ تو بتاؤ ہمیں
کیا تم سپنوں کی مایا ہو یا اس جیون کی چھایا ہو یوں ہی جال میں مت الجھاؤ ہمیں تم کون ہو یہ تو بتاؤ
پریت کی ریت امر ہے
پریت کی ریت امر ہے جگ میں کیسے اس کو نہ مانے کوئی آنکھ کھلی اب مٹے بہانے کیسے کرے بہانے کوئی مٹا دھندلکا دل
آج کھلی من کی پھلواری
آج کھلی من کی پھلواری سندر پیاری پیاری راج بھون اب رنگ محل ہے یا برندابن کا جنگل ہے جب میں رانی بنی رادھکا اور
Quote
جب دنیا پریمی اور پیتم کو ملنے نہیں دیتی تو دل کا ساز تڑپ اٹھتا ہے اور قدرت گیت بناتی ہے۔ میراجی
سب سے پہلے آواز بنی، آواز کے اتار چڑھاؤ سے سر بنے، سروں کے سنجوگ سے بول نے جنم لیا اور پھر راگ کی ڈوری
ہر کھیل کی دلچسپی وہیں تک ہے جب تک دل یہ سمجھے کہ یہ کھیل سب سے پہلے ہمیں کھیل رہے ہیں۔ میراجی
گیت ہی تو ہماری زندگی کا رس ہیں۔ جیسے دھرتی پر ساون آتا ہے ہماری زندگی پر بھی چار دن کے لیے بسنت رت کی
آئے دن دنیا اور زندگی کے جھمیلے ہمیں اپنے میں ایسا الجھاتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر ایک تھکن بری طرح قابو پا لیتی ہے۔