Rajinder Manchanda Bani
- 1932-11 October 1981
- Multan, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
جانے وہ کون تھا اور کس کو صدا دیتا تھا
جانے وہ کون تھا اور کس کو صدا دیتا تھا اس سے بچھڑا ہے کوئی اتنا پتہ دیتا تھا کوئی کچھ پوچھے تو کہتا کہ
زماں مکاں تھے مرے سامنے بکھرتے ہوئے
زماں مکاں تھے مرے سامنے بکھرتے ہوئے میں ڈھیر ہو گیا طول سفر سے ڈرتے ہوئے دکھا کے لمحۂ خالی کا عکس لاتفسیر یہ مجھ
اے دوست میں خاموش کسی ڈر سے نہیں تھا
اے دوست میں خاموش کسی ڈر سے نہیں تھا قائل ہی تری بات کا اندر سے نہیں تھا ہر آنکھ کہیں دور کے منظر پہ
تمام راستہ پھولوں بھرا ہے میرے لیے
تمام راستہ پھولوں بھرا ہے میرے لیے کہیں تو کوئی دعا مانگتا ہے میرے لیے تمام شہر ہے دشمن تو کیا ہے میرے لیے میں
مجھے پتہ تھا کہ یہ حادثہ بھی ہونا تھا
مجھے پتہ تھا کہ یہ حادثہ بھی ہونا تھا میں اس سے مل کے نہ تھا خوش جدا بھی ہونا تھا چلو کہ جذبۂ اظہار
وہ بات بات پہ جی بھر کے بولنے والا
وہ بات بات پہ جی بھر کے بولنے والا الجھ کے رہ گیا ڈوری کو کھولنے والا لو سارے شہر کے پتھر سمیٹ لائے ہیں
آج اک لہر بھی پانی میں نہ تھی
آج اک لہر بھی پانی میں نہ تھی کوئی تصویر روانی میں نہ تھی ولولہ مصرعۂ اول میں نہ تھا حرکت مصرعۂ ثانی میں نہ
نہ منزلیں تھیں نہ کچھ دل میں تھا نہ سر میں تھا
نہ منزلیں تھیں نہ کچھ دل میں تھا نہ سر میں تھا عجب نظارۂ لا سمتیت نظر میں تھا عتاب تھا کسی لمحے کا اک
آج تو رونے کو جی ہو جیسے
آج تو رونے کو جی ہو جیسے پھر کوئی آس بندھی ہو جیسے شہر میں پھرتا ہوں تنہا تنہا آشنا ایک وہی ہو جیسے ہر
موڑ تھا کیسا تجھے تھا کھونے والا میں
موڑ تھا کیسا تجھے تھا کھونے والا میں رو ہی پڑا ہوں کبھی نہ رونے والا میں کیا جھونکا تھا چمک گیا تن من سارا
دیکھتا تھا میں پلٹ کر ہر آن
دیکھتا تھا میں پلٹ کر ہر آن کس صدا کا تھا نہ جانے امکان اس کی اک بات کو تنہا مت کر وہ کہ ہے
دن کو دفتر میں اکیلا شب بھرے گھر میں اکیلا
دن کو دفتر میں اکیلا شب بھرے گھر میں اکیلا میں کہ عکس منتشر ایک ایک منظر میں اکیلا اڑ چلا وہ اک جدا خاکہ
Nazm
نفی سارے حسابوں کی
لپکتا سرخ امکاں جو مجھے آئندہ کی دہلیز پر لا کر کھڑا کرنے کی خواہش میں مچلتا ہے مرے ہاتھوں کو چھو کر مجھ سے
جینا ہے مجھے
پھر خیال آیا کہ جینا ہے مجھے جس طرح ایک تھکا ماندہ پرندہ لاکھ ہو برف بہ جاں لاکھ ہو آہستہ سفر اک بلندی پہ
معمول
ایک بڑھیا شب گئے دہلیز پر بیٹھی ہوئی تک رہی ہے اپنے اکلوتے جواں بچے کی راہ سو چکا سارا محلہ اور گلی کے موڑ
کوئی خواب خواب سا فاصلہ
لب زرد پر کوئی حمد ہے کہ گلہ کہو مری پیلی آنکھ میں بجھتے خوں کا الاؤ ہے کہ طلا کہو مرے دست و بازو
نہ قائل ہوتے ہیں نہ زائل
بنجر چہرے جن پر نہ بارش کی پہلی بوند کا اظہار اگتا ہے نہ آتے جاتے لمحوں کا کوئی اقرار انکار نہ اطمینان نہ ڈر
عورت کتا اور پڑوس
اک حسیں سی عورت اپنے نرم چہرے کو مضطرب سا رکھتی ہے جس کے فقرے فقرے میں گونجتی ہے جھلاہٹ اپنے گھر کے آنگن میں
آخری بس
آخری بس تیرتی سی جا رہی ہے شب کی فرش مرمریں پر شبنم آگیں دھند کی نیلی گپھا میں بس کے اندر ہر کوئی بیٹھا
ہر جادۂ شہر
شہر کی اک اک سڑک پھانکتی آئی ہے لاکھوں حادثوں کی سرد دھول جانے کتنے اجنبی اک دوسرے کے دوست بننے سے کنارہ کر گئے
ن م راشدؔ کے انتقال پر
یہ رات ہے کہ حرف و ہنر کا زیاں کدہ اظہار اپنے آپ میں مہمل ہوئے تمام اب میں ہوں اور لمحۂ لاہوت کا سفیر
ادھر کی آواز اس طرف ہے
اجاڑ سی دھوپ آدھی ساعت کہ نا مکمل علامتیں داغ داغ آنکھیں یہ ٹیلہ ٹیلہ اترتی بھیڑیں کہاں ہے جو ان کے ساتھ ہوتا تھا
حرف غیر
میرے احباب میں اک شاعر کم نام بھی ہے ذہن ہے جس کا عجب راحت گاہ حادثے ایک زمانے کے جہاں آ کے سکوں پاتے
آخری موسم
زماں مکاں کے ہزار ہنگامے قلب خستہ کو اس طرح ڈھیر کر گئے ہیں کہ جیسے اک خشک خشک پتے کی کپکپاتی ہوئی رگوں سے
Sher
بس ایک زخم تھا دل میں جگہ بناتا ہوا
بس ایک زخم تھا دل میں جگہ بناتا ہوا ہزار غم تھے مگر بھولتے بسرتے ہوئے راجیندر منچندا بانی
وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسن آخر تھا
وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسن آخر تھا کہ چپ سی لگ گئی دونوں کو بات کرتے ہوئے راجیندر منچندا بانی
اوس سے پیاس کہاں بجھتی ہے
اوس سے پیاس کہاں بجھتی ہے موسلا دھار برس میری جان راجیندر منچندا بانی
کوئی بھی گھر میں سمجھتا نہ تھا مرے دکھ سکھ
کوئی بھی گھر میں سمجھتا نہ تھا مرے دکھ سکھ ایک اجنبی کی طرح میں خود اپنے گھر میں تھا راجیندر منچندا بانی
ڈھلے گی شام جہاں کچھ نظر نہ آئے گا
ڈھلے گی شام جہاں کچھ نظر نہ آئے گا پھر اس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی راجیندر منچندا بانی
اداس شام کی یادوں بھری سلگتی ہوا
اداس شام کی یادوں بھری سلگتی ہوا ہمیں پھر آج پرانے دیار لے آئی راجیندر منچندا بانی
دن کو دفتر میں اکیلا شب بھرے گھر میں اکیلا
دن کو دفتر میں اکیلا شب بھرے گھر میں اکیلا میں کہ عکس منتشر ایک ایک منظر میں اکیلا راجیندر منچندا بانی
اس قدر خالی ہوا بیٹھا ہوں اپنی ذات میں
اس قدر خالی ہوا بیٹھا ہوں اپنی ذات میں کوئی جھونکا آئے گا جانے کدھر لے جائے گا راجیندر منچندا بانی
جانے وہ کون تھا اور کس کو صدا دیتا تھا
جانے وہ کون تھا اور کس کو صدا دیتا تھا اس سے بچھڑا ہے کوئی اتنا پتہ دیتا تھا راجیندر منچندا بانی
محبتیں نہ رہیں اس کے دل میں میرے لیے
محبتیں نہ رہیں اس کے دل میں میرے لیے مگر وہ ملتا تھا ہنس کر کہ وضع دار جو تھا راجیندر منچندا بانی
ماضی سے ابھریں وہ زندہ تصویریں
ماضی سے ابھریں وہ زندہ تصویریں اتر گیا سب نشہ نئے پرانے کا راجیندر منچندا بانی
اس اندھیرے میں نہ اک گام بھی رکنا یارو
اس اندھیرے میں نہ اک گام بھی رکنا یارو اب تو اک دوسرے کی آہٹیں کام آئیں گی راجیندر منچندا بانی