Abdul Ahad Saaz
- 16 October 1950 - 22 March 2020
- Mumbai, India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
سوچ کر بھی کیا جانا جان کر بھی کیا پایا
سوچ کر بھی کیا جانا جان کر بھی کیا پایا جب بھی آئینہ دیکھا خود کو دوسرا پایا ہونٹ پر دیا رکھنا دل جلوں کی
عبث ہے راز کو پانے کی جستجو کیا ہے ردیف
عبث ہے راز کو پانے کی جستجو کیا ہے یہ چاک دل ہے اسے حاجت رفو کیا ہے یہ آئنے ہیں کہ ہم چہرہ لشکروں
سوال کا جواب تھا جواب کے سوال میں
سوال کا جواب تھا جواب کے سوال میں گرفت شور سے چھٹے تو خامشی کے جال میں برا ہو آئینے ترا میں کون ہوں نہ
آج پھر شب کا حوالہ تری جانب ٹھہرے
آج پھر شب کا حوالہ تری جانب ٹھہرے چاند مضمون بنے شرح کواکب ٹھہرے نیک گزرے مری شب صدق بدن سے تیرے غم نہیں رابطۂ
موت سے آگے سوچ کے آنا پھر جی لینا
موت سے آگے سوچ کے آنا پھر جی لینا چھوٹی چھوٹی باتوں میں دلچسپی لینا نرم نظر سے چھونا منظر کی سختی کو تند ہوا
ذکر ہم سے بے طلب کا کیا طلب گاری کے دن
ذکر ہم سے بے طلب کا کیا طلب گاری کے دن تم ہمیں سوچو گے اک دن خود سے بے زاری کے دن منہمک مصروف
میں نے اپنی روح کو اپنے تن سے الگ کر رکھا ہے
میں نے اپنی روح کو اپنے تن سے الگ کر رکھا ہے یوں نہیں جیسے جسم کو پیراہن سے الگ کر رکھا ہے میرے لفظوں
کھلے ہیں پھول کی صورت ترے وصال کے دن
کھلے ہیں پھول کی صورت ترے وصال کے دن ترے جمال کی راتیں ترے خیال کے دن نفس نفس نئی تہہ داریوں میں ذات کی
مری جھولی میں وہ لفظوں کے موتی ڈال دیتا ہے
مری جھولی میں وہ لفظوں کے موتی ڈال دیتا ہے سوائے اس کے کچھ مانگوں تو ہنس کر ٹال دیتا ہے سجھاتا ہے وہی رستہ
حسرت دید نہیں ذوق تماشا بھی نہیں
حسرت دید نہیں ذوق تماشا بھی نہیں کاش پتھر ہوں نگاہیں مگر ایسا بھی نہیں جبر دوزخ نہیں فردوس کا نشہ بھی نہیں خوش ہیں
ہم اپنے زخم کریدتے ہیں وہ زخم پرائے دھوتے تھے
ہم اپنے زخم کریدتے ہیں وہ زخم پرائے دھوتے تھے جو ہم سے زیادہ جانتے تھے وہ ہم سے زیادہ روتے تھے اچھوں کو جہاں
کھلی جب آنکھ تو دیکھا کہ دنیا سر پہ رکھی ہے
کھلی جب آنکھ تو دیکھا کہ دنیا سر پہ رکھی ہے خمار ہوش میں سمجھے تھے ہم ٹھوکر پہ رکھی ہے مرے ہونے کا یہ
Nazm
الودا ع
لڑکپن کی رفیق اے ہم نوائے نغمۂ طفلی ہماری گیارہ سالہ زندگی کی دل نشیں وادی ہمارے ذہن کی تخئیل کی احساس کی ساتھی ہمارے
آرزو
میری ایک خواہش ہے کوئی ایک نقطہ ہو جو وجود کی ساری سرحدوں سے باہر ہو جس پہ جا کے میں اپنا ایک جائزہ لے
شخصیت کی موسیقی
وہ قبول صورت سی سانولی بھلی عورت تھوڑا رک کے دیکھیں تو کتنی خوب صورت ہے اس کے نرم لہجے میں اس کی سوچ کی
زیارت
بہت سے لوگ مجھ میں مر چکے ہیں کسی کی موت کو واقع ہوئے بارہ برس بیتے کچھ ایسے ہیں کہ تیس اک سال ہونے
سعدیم
زندگی سعدیہؔ کے ساتھ کھلے دم بہ دم یم بہ یم حیات کھلے محو ہو جائے سب گمان نفی اس کے چہرے پہ جب ثبات
آواز کے موتی
شعر کے جادوگر سنگیت کے ساحر مصرعوں اور دھنوں کے خالی سیپوں کے کشکول اٹھائے افسردہ مغموم کھڑے ہیں سونی آنکھوں میں ٹوٹی امید لیے
انتظار باقی ہے
پھوٹی لب نازک سے وہ اک شوخ سی لالی تھوڑی سی شفق عارض تاباں نے چرا لی پھر بام کی جانب اٹھے ابروئے ہلالی اور
عید اس پری وش کی
پھوٹی لب نازک سے وہ اک شوخ سی لالی تھوڑی سی شفق عارض تاباں نے چرا لی پھر بام کی جانب اٹھے ابروئے ہلالی اور
بچت
انہی دو سے آباد ہر اک کا گھر ہے کمانا ہے فن اور بچانا ہنر ہے یہ بات آج ہی سوچنا ہے ضروری کسے ہے
نانی اماں کی وفات پر ایک نظم
آج بچپن کو دفن کر آئے موہنی جھریاں سبک آنکھیں مہرباں شفقتوں سے پر چہرہ تھپکیاں دیتے ہاتھ نرم آغوش چاہتیں دیکھ بھال پیار دلار
خیال خاطر احباب
سلام میرے رفیقوں کو ہم نشینوں کو سپاٹ چہروں کو بے مہر و لطف سینوں کو کوئی حبیب مسرت نہ کوئی مونس غم نہ دل
فساد کے بعد
فساد شہر تھم گیا فضا میں بس گئی ہے ایک زہر ناک خامشی ہراس خوف بے بسی میں کھا رہا ہوں پی رہا ہوں جی
Sher
قدیم سے ہٹے تو ہم جدید میں الجھ گئے
قدیم سے ہٹے تو ہم جدید میں الجھ گئے نکل کے گردش فلک سے موسموں کے جال میں عبد الاحد ساز
برا ہو آئینے ترا میں کون ہوں نہ کھل سکا
برا ہو آئینے ترا میں کون ہوں نہ کھل سکا مجھی کو پیش کر دیا گیا مری مثال میں عبد الاحد ساز
دوست احباب سے لینے نہ سہارے جانا
دوست احباب سے لینے نہ سہارے جانا دل جو گھبرائے سمندر کے کنارے جانا عبد الاحد ساز
خیال کیا ہے جو الفاظ تک نہ پہنچے سازؔ
خیال کیا ہے جو الفاظ تک نہ پہنچے سازؔ جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے عبد الاحد ساز
نیند مٹی کی مہک سبزے کی ٹھنڈک
نیند مٹی کی مہک سبزے کی ٹھنڈک مجھ کو اپنا گھر بہت یاد آ رہا ہے عبد الاحد ساز
گھر والے مجھے گھر پر دیکھ کے خوش ہیں اور وہ کیا جانیں
گھر والے مجھے گھر پر دیکھ کے خوش ہیں اور وہ کیا جانیں میں نے اپنا گھر اپنے مسکن سے الگ کر رکھا ہے عبد
بچپن میں ہم ہی تھے یا تھا اور کوئی
بچپن میں ہم ہی تھے یا تھا اور کوئی وحشت سی ہونے لگتی ہے یادوں سے عبد الاحد ساز
داد و تحسین کی بولی نہیں تفہیم کا نقد
داد و تحسین کی بولی نہیں تفہیم کا نقد شرط کچھ تو مرے بکنے کی مناسب ٹھہرے عبد الاحد ساز
مفلسی بھوک کو شہوت سے ملا دیتی ہے
مفلسی بھوک کو شہوت سے ملا دیتی ہے گندمی لمس میں ہے ذائقۂ نان جویں عبد الاحد ساز
شعر اچھے بھی کہو سچ بھی کہو کم بھی کہو
شعر اچھے بھی کہو سچ بھی کہو کم بھی کہو درد کی دولت نایاب کو رسوا نہ کرو عبد الاحد ساز
نظر تو آتے ہیں کمروں میں چلتے پھرتے مگر
نظر تو آتے ہیں کمروں میں چلتے پھرتے مگر یہ گھر کے لوگ نہ جانے کہاں گئے ہوئے ہیں عبد الاحد ساز
وہ تو ایسا بھی ہے ویسا بھی ہے کیسا ہے مگر؟
وہ تو ایسا بھی ہے ویسا بھی ہے کیسا ہے مگر؟ کیا غضب ہے کوئی اس شوخ کے جیسا بھی نہیں عبد الاحد ساز