Nazish Pratapgarhi
- 12 July 1924-10 April 1984
- Pratapgarh, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Nazish Pratapgarhi was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
پھوٹ چکی ہیں صبح کی کرنیں سورج چڑھتا جائے گا
پھوٹ چکی ہیں صبح کی کرنیں سورج چڑھتا جائے گا رات تو خود مرتی ہے ستارو تم کو کون بچائے گا جو ذرہ جنتا میں
یوں لوگ چونک چونک کر انگلی اٹھائے ہیں
یوں لوگ چونک چونک کر انگلی اٹھائے ہیں جیسے ہم آج پہلے پہل مسکرائے ہیں اکثر کھلی فضاؤں میں بھی سنسنائے ہیں ہم پر ہمارے
بے چہرگیٔ غم سے پریشان کھڑے ہیں
بے چہرگیٔ غم سے پریشان کھڑے ہیں ہم پھر بھی وہ ظالم ہیں کہ جینے پر اڑے ہیں غم سے جو بلند اور مسرت سے
کچھ دور ساتھ گردش شام و سحر گئی
کچھ دور ساتھ گردش شام و سحر گئی پھر اس کے بعد زندگی جانے کدھر گئی اپنوں کی بے وفائی بڑا کام کر گئی اس
وہ سمجھتا ہے اسے جو راز دار نغمہ ہے
وہ سمجھتا ہے اسے جو راز دار نغمہ ہے آہ کہتے ہیں جسے صرف اک شرار نغمہ ہے منحصر جس پر ازل سے کاروبار نغمہ
ذکر نشاط خلوت غم میں برا لگے
ذکر نشاط خلوت غم میں برا لگے تم بھی اگر ملو تو مجھے حادثہ لگے جب بھی کسی کی سعئ کرم کی ہوا لگے مجھ
آپ کے التفات کا غم ہو
آپ کے التفات کا غم ہو اتنی چھوٹی سی بات کا غم ہو آج ان آنکھوں کی بات یاد آئی آج کس کو حیات کا
دل خلوص گزیدہ کو کوئی کیا جانے
دل خلوص گزیدہ کو کوئی کیا جانے میں چاہتا ہوں کہ دنیا مجھے نہ پہچانے سنو نہ میری شکستہ دلی کے افسانے کہ میرے سامنے
سرپھرے کرنے لگے ہیں جذب سوز دل کی بات
سرپھرے کرنے لگے ہیں جذب سوز دل کی بات اب خدا رکھے تو رکھے آپ کی محفل کی بات قافلے والو اب آؤ اور آگے
آہ کو نغمہ کہ نغمے کو فغاں کرنا پڑے
آہ کو نغمہ کہ نغمے کو فغاں کرنا پڑے دیکھیے کیا کچھ برائے دوستاں کرنا پڑے اہل محمل غور سے سنتے رہیں روداد دل کیا
Nazm
زباں سے نفرت کیوں
جہاں بھی چھانوں گھنی ہو قیام کرتے چلو ادب جہاں بھی ملے احترام کرتے چلو ہر اک زبان کو یارو سلام کرتے چلو گروہ کی
گاندھی جی کی آواز
سلام اے افق ہند کے حسیں تارو سلام تم پہ سپہر وطن کے مہ پارو سلام تم پہ مرے بچو اے مرے پیارو بھلائے بیٹھے
ہم بھارت کے رکھوالے ہیں
ہم بھارت کے رکھوالے ہیں سب اس کے بچے بالے ہیں کیسے یہ بہاری کشمیری اور کیا ہیں یہ اترپردیشی کیسے پنجابی آسامی کیسے مدراسی
میر انیسؔ
منظر و مرثیہ و رزم و سراپا کیا کیا نہ لکھا میر انیسؔ آپ نے تنہا کیا کیا نظم میں ہوتی ہے کردار نگاری کیوں
بیاد سمیم کرہانی
اف یہ پچھلے پہر کا سناٹا ذہن پر ڈنک مارتا جائے ایک اک زخم ابھارتا جائے بھولا بسرا ہوا سا اک چہرہ میرے اشکوں میں
بازار
بول اے شاعر اے نغمہ گر بیچے گا فن کو بیچے گا بول اپنے من کو بیچے گا اپنے شہ پارے بیچے گا اپنی تحریریں
طلب گار مرد تھا
رات کی زلف سیہ اور سنورتی ہی رہی رات کی زلف سیہ اور سنورتی ہی رہی چاند کی بکھری ہوئی سرد شعاعوں سے الگ اور
خاموش
جو کچھ دیکھو وہ نہ کہو خاموش رہو سوچو لیکن لب سی لو خاموش رہو خودداری کا خون کرو خاموش رہو آگاہی کا کرب سہو
سناٹا
دل کشی گو افق تا افق ہے مگر دل کشی کچھ نہیں سر خوشی بھی طبق در طبق ہے مگر سر خوشی کچھ نہیں راگنی
عطائے توبہ لقائے تو
تیری باتوں میں ترا فن تیرے فن میں تیری بات کیوں ہو تیرے باب میں پھر کاوش ذات و صفات پہونچی غم کی روح تک
ساری مصیبتوں کو جو ہنس ہنس کے سہہ گئے
ساری مصیبتوں کو جو ہنس ہنس کے سہہ گئے دار فنا میں صرف وہی زندہ رہ گئے وہ جوش تھا کہ پھاند گئے کوہسار بھی
Sher
تنہا تنہا رو لینے سے کچھ نہ بنے گا کچھ نہ بنا
تنہا تنہا رو لینے سے کچھ نہ بنے گا کچھ نہ بنا مل جل کر آواز اٹھاؤ پربت بھی ہل جائے گا نازش پرتاپ گڑھی
خدا اے کاش نازشؔ جیتے جی وہ وقت بھی لائے
خدا اے کاش نازشؔ جیتے جی وہ وقت بھی لائے کہ جب ہندوستان کہلائے گا ہندوستان آزادی نازش پرتاپ گڑھی
تہہ بہ تہہ جمتی چلی جاتی ہے سناٹوں کی گرد
تہہ بہ تہہ جمتی چلی جاتی ہے سناٹوں کی گرد حال دل سب دیکھتے ہیں پوچھتا کوئی نہیں نازش پرتاپ گڑھی
نہ ہوگا رائیگاں خون شہیدان وطن ہرگز
نہ ہوگا رائیگاں خون شہیدان وطن ہرگز یہی سرخی بنے گی ایک دن عنوان آزادی نازش پرتاپ گڑھی
جوانو نذر دے دو اپنے خون دل کا ہر قطرہ
جوانو نذر دے دو اپنے خون دل کا ہر قطرہ لکھا جائے گا ہندوستان کو فرمان آزادی نازش پرتاپ گڑھی