![Amjad Hyderabadi 1 Amjad Hyderabadi](https://iztirab.com/wp-content/uploads/2023/07/Amjad-Hyderabadi-927x1024.jpg)
Amjad Hyderabadi
- 1 January 1888-31 January 1961
- Hyderabad State, British India
Introduction
آدبی-اجلاس-و-مشاعرہ.
Ghazal
نالہ جان خستہ جاں عرش بریں پہ جائے کیوں
نالہ جان خستہ جاں عرش بریں پہ جائے کیوں میرے لئے زمین پر صاحب عرش آئے کیوں نور زمین و آسماں دیدۂ دل میں آئے
یوں تو کیا کیا نظر نہیں آتا
یوں تو کیا کیا نظر نہیں آتا کوئی تم سا نظر نہیں آتا ڈھونڈتی ہیں جسے مری آنکھیں وہ تماشا نظر نہیں آتا ہو چلی
Rubai
کم ظرف اگر دولت و زر پاتا ہے
کم ظرف اگر دولت و زر پاتا ہے مانند حباب ابھر کے اتر آتا ہے کرتے ہیں ذرا سی بات پر فکر خسیس تنکا تھوڑی
اس جسم کی کیچلی میں اک ناگ بھی ہے
اس جسم کی کیچلی میں اک ناگ بھی ہے آواز شکست دل میں اک راگ بھی ہے بے کار نہیں بنا ہے اک تنکا بھی
ہر قطرے میں بحر معرفت مضمر ہے
ہر قطرے میں بحر معرفت مضمر ہے ہر اک ذرے میں کچھ نہ کچھ جوہر ہے ہو چشم بصیرت تو ہر چیز اچھی گر آنکھ
مر مر کے لحد میں میں نے جا پائی ہے
مر مر کے لحد میں میں نے جا پائی ہے یاں تک مجھے تیری ہی کشش لائی ہے آ اے مرے منہ چھپانے والے آ
سرمایہ علم و فضل کھویا میں نے
سرمایہ علم و فضل کھویا میں نے سب دفتر پارینہ ڈبویا میں نے بس ہے تری خاک پا تیمم کے لیے اے دوست وضو سے
دنیا کے ہر ایک ذرے سے گھبراتا ہوں
دنیا کے ہر ایک ذرے سے گھبراتا ہوں غم سامنے آتا ہے جدھر جاتا ہوں رہتے ہوئے اس جہاں میں مدت گزری پھر بھی اپنے
ہر محفل سے بہ حال خستہ نکلا
ہر محفل سے بہ حال خستہ نکلا ہر بزم طرب سے دل شکستہ نکلا منزل ہی نہیں یہاں مسافر کے لیے سمجھا تھا جسے مقام
جو معنی مضموں ہے وہی عنواں ہے
جو معنی مضموں ہے وہی عنواں ہے واجب ہی میں ایک صورت امکاں ہے محشر ہو کہ قبر زندگی ہو کہ ہو موت جو یاں
جو کچھ مصیبتیں ہیں تجھ پر کم ہیں
جو کچھ مصیبتیں ہیں تجھ پر کم ہیں خوشیاں دنیا کی تیرے حق میں سم ہیں غم سے کیوں دور بھاگتا ہے امجد معلوم نہیں
گرمی میں غم لبادہ نازیبا ہے
گرمی میں غم لبادہ نازیبا ہے مستی میں خیال بادہ نازیبا ہے کافی ہے ضرورت کے مطابق دنیا دنیا حد سے زیادہ نازیبا ہے امجد
کچھ وقت سے ایک بیج شجر ہوتا ہے
کچھ وقت سے ایک بیج شجر ہوتا ہے کچھ روز میں ایک قطرہ گہر ہوتا ہے اے بندہ نا صبور تیرا ہر کام کچھ دیر
اصلیت اگر نہیں تو دھوکا ہی سہی
اصلیت اگر نہیں تو دھوکا ہی سہی اللہ بہت نہیں تو تھوڑا ہی سہی تسکین کی آخر کوئی صورت بھی تو ہو رویت ممکن نہیں
Sher
ڈھونڈتی ہیں جسے مری آنکھیں
ڈھونڈتی ہیں جسے مری آنکھیں وہ تماشا نظر نہیں آتا امجد حیدر آبادی
برباد نہ کر بیکس کا چمن بے درد خزاں سے کون کہے
برباد نہ کر بیکس کا چمن بے درد خزاں سے کون کہے تاراج نہ کر میرا خرمن اس برق تپاں سے کون کہے امجد حیدر
جھولیاں سب کی بھرتی جاتی ہیں
جھولیاں سب کی بھرتی جاتی ہیں دینے والا نظر نہیں آتا امجد حیدر آبادی
ہو چلی ختم انتظار میں عمر
ہو چلی ختم انتظار میں عمر کوئی آتا نظر نہیں آتا امجد حیدر آبادی
نور زمین و آسماں دیدہ دل میں آئے کیوں
نور زمین و آسماں دیدہ دل میں آئے کیوں میرے سیاہ خانے میں کوئی دیا جلائے کیوں امجد حیدر آبادی
زخم کو گھاؤ کیوں بناؤ درد کو اور کیوں بڑھاؤ
زخم کو گھاؤ کیوں بناؤ درد کو اور کیوں بڑھاؤ نسبت ہو کو توڑ کر کیجئے ہائے ہائے کیوں امجد حیدر آبادی