Syed Abid Ali Abid
- 17 September 1906-20 January 1971
- Dera Ismail Khan, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Syed Abid Ali Abid was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
یہ کیا طلسم ہے دنیا پہ بار گزری ہے
یہ کیا طلسم ہے دنیا پہ بار گزری ہے وہ زندگی جو سر رہ گزار گزری ہے گلوں کی گم شدگی سے سراغ ملتا ہے
عام ہو فیض بہاراں تو مزا آ جائے
عام ہو فیض بہاراں تو مزا آ جائے چاک ہوں سب کے گریباں تو مزا آ جائے واعظو میں بھی تمہاری ہی طرح مسجد میں
آئی سحر قریب تو میں نے پڑھی غزل
آئی سحر قریب تو میں نے پڑھی غزل جانے لگے ستاروں کے بجتے ہوئے کنول بے تاب ہے جنوں کہ غزل خوانیاں کروں خاموش ہے
گردش جام نہیں رک سکتی
گردش جام نہیں رک سکتی جو بھی اے گردش دوراں گزرے صبح محشر ہے بلائے ظاہر کسی صورت شب ہجراں گزرے کوئی برسا نہ سر
چین پڑتا ہے دل کو آج نہ کل
چین پڑتا ہے دل کو آج نہ کل وہی الجھن گھڑی گھڑی پل پل میرا جینا ہے سیج کانٹوں کی ان کے مرنے کا نام
چاند ستاروں سے کیا پوچھوں کب دن میرے پھرتے ہیں
چاند ستاروں سے کیا پوچھوں کب دن میرے پھرتے ہیں وہ تو بچارے خود ہیں بھکاری ڈیرے ڈیرے پھرتے ہیں جن گلیوں میں ہم نے
مے ہو ساغر میں کہ خوں رات گزر جائے گی
مے ہو ساغر میں کہ خوں رات گزر جائے گی دل کو غم ہو کہ سکوں رات گزر جائے گی دیکھنا یہ ہے کہ انداز
کہو بتوں سے کہ ہم طبع سادہ رکھتے ہیں
کہو بتوں سے کہ ہم طبع سادہ رکھتے ہیں پھر ان سے عرض وفا کا ارادہ رکھتے ہیں یہی خطا ہے کہ اس گیر و
کسی کی عشوہ گری سے بہ غیر فصل بہار
کسی کی عشوہ گری سے بہ غیر فصل بہار سبھی کا چاک گریباں ہے دیکھیے کیا ہو تمہیں خبر ہی نہیں اے طیور نغمہ سرا
سب کے جلوے نظر سے گزرے ہیں
سب کے جلوے نظر سے گزرے ہیں وہ نہ جانے کدھر سے گزرے ہیں موج آواز پائے یار کے ساتھ نغمے دیوار و در سے
دن ڈھلا شام ہوئی پھول کہیں لہرائے
دن ڈھلا شام ہوئی پھول کہیں لہرائے سانپ یادوں کے مہکتے ہوئے ڈسنے آئے وہ کڑی دھوپ کے دن وہ تپش راہ وفا وہ سواد
یہی تھا وقف تری محفل طرب کے لئے
یہی تھا وقف تری محفل طرب کے لئے چراغ دل کہ سلگتا ہے آج سب کے لئے کبھی میں جرأت اظہار مدعا تو کروں کوئی
Nazm
بہار بن کے چلی آ کہ جا رہی ہے بہار
فروغ ماہ سے کیا جگمگا رہی ہے بہار گلوں میں نور کی شمعیں جلا رہی ہے بہار زمین باغ کو جنت بنا رہی ہے بہار
شام بہار
ضو فشاں ہے فلک پہ ماہ مبیں چاندنی سے چمک اٹھی ہے زمیں ہو گئی ہے ہر ایک شے سیمیں تابش نور کا جواب نہیں
اے دل افسردہ
اے دل افسردہ پینے کی بہاریں آ گئیں کالی کالی بدلیاں پھر آسماں پر چھا گئیں دامن کہسار سے ٹھنڈی ہوا آنے لگی نبض خس
Sher
یا کبھی عاشقی کا کھیل نہ کھیل
یا کبھی عاشقی کا کھیل نہ کھیل یا اگر مات ہو تو ہاتھ نہ مل سید عابد علی عابد
دم رخصت وہ چپ رہے عابدؔ
دم رخصت وہ چپ رہے عابدؔ آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل سید عابد علی عابد
اک دن اس نے نین ملا کے شرما کے مکھ موڑا تھا
اک دن اس نے نین ملا کے شرما کے مکھ موڑا تھا تب سے سندر سندر سپنے من کو گھیرے پھرتے ہیں سید عابد علی
انہیں کو عرض وفا کا تھا اشتیاق بہت
انہیں کو عرض وفا کا تھا اشتیاق بہت انہیں کو عرض وفا نا گوار گزری ہے سید عابد علی عابد
واعظو میں بھی تمہاری ہی طرح مسجد میں
واعظو میں بھی تمہاری ہی طرح مسجد میں بیچ دوں دولت ایماں تو مزا آ جائے سید عابد علی عابد
وہ مجھے مشورۂ ترک وفا دیتے تھے
وہ مجھے مشورۂ ترک وفا دیتے تھے یہ محبت کی ادا ہے مجھے معلوم نہ تھا سید عابد علی عابد
کہتے تھے تجھی کو جان اپنی
کہتے تھے تجھی کو جان اپنی اور تیرے بغیر بھی جئے ہیں سید عابد علی عابد
میرا جینا ہے سیج کانٹوں کی
میرا جینا ہے سیج کانٹوں کی ان کے مرنے کا نام تاج محل سید عابد علی عابد
جلوۂ یار سے کیا شکوۂ بے جا کیجے
جلوۂ یار سے کیا شکوۂ بے جا کیجے شوق دیدار کا عالم وہ کہاں ہے کہ جو تھا سید عابد علی عابد
آج آیا ہے اپنا دھیان ہمیں
آج آیا ہے اپنا دھیان ہمیں آج دل کے نگر سے گزرے ہیں سید عابد علی عابد
کچھ احترام بھی کر غم کی وضع داری کا
کچھ احترام بھی کر غم کی وضع داری کا گراں ہے عرض تمنا تو بار بار نہ کر سید عابد علی عابد
تیرے خوش پوش فقیروں سے وہ ملتے تو سہی
تیرے خوش پوش فقیروں سے وہ ملتے تو سہی جو یہ کہتے ہیں وفا پیرہن چاک میں ہے سید عابد علی عابد
Tanz-O-Mazakh
غالب کی محفل
مقام دہلی ۱۸۵۶عیسوی راوی، ۱۸۵۰ء تک دہلی اور لکھنؤ کی محفلوں پر بہار تھی، ہر طرف شعر و سخن کا چرچا تھا۔ اس میں کوئی