Ali Sardar Jafri
- 29 November 1913-1 August 2000
- Balrampur, Uttar Pradesh, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Ali Sardar Jafri was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
میں جہاں تم کو بلاتا ہوں وہاں تک آؤ
میں جہاں تم کو بلاتا ہوں وہاں تک آؤ میری نظروں سے گزر کر دل و جاں تک آؤ پھر یہ دیکھو کہ زمانے کی
کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا
کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا باعث رشک ہے تنہا رویٔ رہ
مستیٔ رندانہ ہم سیرابیٔ مے خانہ ہم
مستیٔ رندانہ ہم سیرابیٔ مے خانہ ہم گردش تقدیر سے ہیں گردش پیمانہ ہم خون دل سے چشم تر تک چشم تر سے تا بہ
شکست شوق کو تکمیل آرزو کہیے
شکست شوق کو تکمیل آرزو کہیے جو تشنگی ہو تو پیمانہ و سبو کہیے خیال یار کو دیجیے وصال یار کا نام شب فراق کو
اک صبح ہے جو ہوئی نہیں ہے
اک صبح ہے جو ہوئی نہیں ہے اک رات ہے جو کٹی نہیں ہے مقتولوں کا قحط پڑ نہ جائے قاتل کی کہیں کمی نہیں
اب آ گیا ہے جہاں میں تو مسکراتا جا
اب آ گیا ہے جہاں میں تو مسکراتا جا چمن کے پھول دلوں کے کنول کھلاتا جا عدم حیات سے پہلے عدم حیات کے بعد
خرد والو جنوں والوں کے ویرانوں میں آ جاؤ
خرد والو جنوں والوں کے ویرانوں میں آ جاؤ دلوں کے باغ زخموں کے گلستانوں میں آ جاؤ یہ دامان و گریباں اب سلامت رہ
آئے ہم غالبؔ و اقبالؔ کے نغمات کے بعد
آئے ہم غالبؔ و اقبالؔ کے نغمات کے بعد مصحفؔ عشق و جنوں حسن کی آیات کے بعد اے وطن خاک وطن وہ بھی تجھے
وہی ہے وحشت وہی ہے نفرت آخر اس کا کیا ہے سبب
وہی ہے وحشت وہی ہے نفرت آخر اس کا کیا ہے سبب انساں انساں بہت رٹا ہے انساں انساں بنے گا کب وید اپنیشد پرزے
ظلم کی کچھ میعاد نہیں ہے
ظلم کی کچھ میعاد نہیں ہے داد نہیں فریاد نہیں ہے قتل ہوئے ہیں اب تک کتنے کوئے ستم کو یاد نہیں ہے آخر روئیں
الجھے کانٹوں سے کہ کھیلے گل تر سے پہلے
الجھے کانٹوں سے کہ کھیلے گل تر سے پہلے فکر یہ ہے کہ صبا آئے کدھر سے پہلے جام و پیمانہ و ساقی کا گماں
صبح ہر اجالے پہ رات کا گماں کیوں ہے
صبح ہر اجالے پہ رات کا گماں کیوں ہے جل رہی ہے کیا دھرتی عرش پہ دھواں کیوں ہے خنجروں کی سازش پر کب تلک
Nazm
گفتگو (ہند پاک دوستی کے نام)
گفتگو بند نہ ہو بات سے بات چلے صبح تک شام ملاقات چلے ہم پہ ہنستی ہوئی یہ تاروں بھری رات چلے ہوں جو الفاظ
اٹھو
اٹھو ہند کے باغبانو اٹھو اٹھو انقلابی جوانو اٹھو کسانوں اٹھو کامگارو اٹھو نئی زندگی کے شرارو اٹھو اٹھو کھیلتے اپنی زنجیر سے اٹھو خاک
اردو
ہماری پیاری زبان اردو ہماری نغموں کی جان اردو حسین دل کش جوان اردو زبان وہ دھل کے جس کو گنگا کے جل سے پاکیزگی
دوستی کا ہاتھ
تمہارا ہاتھ بڑھا ہے جو دوستی کے لیے مرے لیے ہے وہ اک یار غم گسار کا ہاتھ وہ ہاتھ شاخ گل گلشن تمنا ہے
فریب
(۱) ناگہاں شور ہوا لو شب تار غلامی کی سحر آ پہنچی انگلیاں جاگ اٹھیں بربط و طاؤس نے انگڑائی لی اور مطرب کی ہتھیلی
میرے خواب
اے مرے حسیں خوابو تم کہاں سے آئے ہو کس افق سے ابھرے ہو کس شفق سے نکھرے ہو کن گلوں کی صحبت میں تم
مرے عزیزو، مرے رفیقو
مرے عزیزو، مرے رفیقو مری کمیونزم سے ہو خائف مری تمنا سے ڈر رہے ہو مگر مجھے کچھ گلا نہیں ہے تمہاری روحوں کی سادگی
تین شرابی
ذکر نہیں یہ فرزانوں کا قصہ ہے اک دیوانوں کا ماسکو، پیرس اور لندن میں دیکھے میں نے تین شرابی سرخ تھیں آنکھیں روح گلابی
تم نہیں آئے تھے جب
تم نہیں آئے تھے جب تب بھی تو موجود تھے تم آنکھ میں نور کی اور دل میں لہو کی صورت درد کی لو کی
میرا سفر
ہمچو سبزہ بارہا روئیدہ ایم رومیؔ پھر اک دن ایسا آئے گا آنکھوں کے دئیے بجھ جائیں گے ہاتھوں کے کنول کمھلائیں گے اور برگ
نوالا
ماں ہے ریشم کے کارخانے میں باپ مصروف سوتی مل میں ہے کوکھ سے ماں کی جب سے نکلا ہے بچہ کھولی کے کالے دل
تو مجھے اتنے پیار سے مت دیکھ
تو مجھے اتنے پیار سے مت دیکھ تیری پلکوں کے نرم سائے میں دھوپ بھی چاندنی سی لگتی ہے اور مجھے کتنی دور جانا ہے
Sher
انقلاب آئے گا رفتار سے مایوس نہ ہو
انقلاب آئے گا رفتار سے مایوس نہ ہو بہت آہستہ نہیں ہے جو بہت تیز نہیں علی سردار جعفری
کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا
کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا علی سردار جعفری
پرانے سال کی ٹھٹھری ہوئی پرچھائیاں سمٹیں
پرانے سال کی ٹھٹھری ہوئی پرچھائیاں سمٹیں نئے دن کا نیا سورج افق پر اٹھتا آتا ہے علی سردار جعفری
سو ملیں زندگی سے سوغاتیں
سو ملیں زندگی سے سوغاتیں ہم کو آوارگی ہی راس آئ علی سردار جعفری
یہ کس نے فون پے دی سال نو کی تہنیت مجھ کو
یہ کس نے فون پے دی سال نو کی تہنیت مجھ کو تمنا رقص کرتی ہے تخیل گنگناتا ہے علی سردار جعفری
شکایتیں بھی بہت ہیں حکایتیں بھی بہت
شکایتیں بھی بہت ہیں حکایتیں بھی بہت مزا تو جب ہے کہ یاروں کے رو بہ رو کہیے علی سردار جعفری
بہت برباد ہیں لیکن صدائے انقلاب آئے
بہت برباد ہیں لیکن صدائے انقلاب آئے وہیں سے وہ پکار اٹھے گا جو ذرہ جہاں ہوگا علی سردار جعفری
یہ مے کدہ ہے یہاں ہیں گناہ جام بدست
یہ مے کدہ ہے یہاں ہیں گناہ جام بدست وہ مدرسہ ہے وہ مسجد وہاں ملے گا ثواب علی سردار جعفری
اسی دنیا میں دکھا دیں تمہیں جنت کی بہار
اسی دنیا میں دکھا دیں تمہیں جنت کی بہار شیخ جی تم بھی ذرا کوئے بتاں تک آؤ علی سردار جعفری
شب کے سناٹے میں یہ کس کا لہو گاتا ہے
شب کے سناٹے میں یہ کس کا لہو گاتا ہے سرحد درد سے یہ کس کی صدا آتی ہے علی سردار جعفری
پیاس جہاں کی ایک بیاباں تیری سخاوت شبنم ہے
پیاس جہاں کی ایک بیاباں تیری سخاوت شبنم ہے پی کے اٹھا جو بزم سے تیری اور بھی تشنہ کام اٹھا علی سردار جعفری
دل و نظر کو ابھی تک وہ دے رہے ہیں فریب
دل و نظر کو ابھی تک وہ دے رہے ہیں فریب تصورات کہن کے قدیم بت خانے علی سردار جعفری
Qita
میری دنیا میں محبت نہیں کہتے ہیں اسے
میری دنیا میں محبت نہیں کہتے ہیں اسے یوں تو ہر سنگ کے سینے میں شرر ملتا ہے سیکڑوں اشک جب آنکھوں سے برس جاتے
جذبۂ شوق کی تکمیل نہیں ہو سکتی
جذبۂ شوق کی تکمیل نہیں ہو سکتی زندگی موت ہے احساس مسرت کے بغیر فقط اعصاب کی تسکین ہے توہین حیات صرف حیوان ہے انسان
میں تو بھولا نہیں تم بھول گئی ہو مجھ کو
میں تو بھولا نہیں تم بھول گئی ہو مجھ کو خیر گر تم بھی نہیں ہو مرے غم خواروں میں تم نہ آؤگی تو کیا
شمع کی طرح پگھلتے ہوئے دل دیکھے ہیں
شمع کی طرح پگھلتے ہوئے دل دیکھے ہیں اشک بن بن کے نکلتے ہوئے دل دیکھے ہیں تو نے دیکھے ہی نہیں گرمئ رخسار حیات
کبھی پہلو میں سمندر کے تڑپ اٹھتی ہیں
کبھی پہلو میں سمندر کے تڑپ اٹھتی ہیں اور کبھی ریت کے سینے سے لپٹ جاتی ہیں ان کو آتا نہیں آغوش محبت میں قرار
اپنے اڑتے ہوئے آنچل کو نہ رہ رہ کے سنبھال
اپنے اڑتے ہوئے آنچل کو نہ رہ رہ کے سنبھال حسن کے پرچم زر تار کو لہرانے دے گر گیا پھول مہکتے ہوئے جوڑے سے
تبسم لب ساقی چمن کھلا ہی گیا
تبسم لب ساقی چمن کھلا ہی گیا نشاط فصل بہاراں دلوں پہ چھا ہی گیا کہو حکایت گیسو فسانۂ قد یار شکست دار و رسن
کوئی ہر گام پہ سو دام بچھا جاتا ہے
کوئی ہر گام پہ سو دام بچھا جاتا ہے راستے میں کوئی دیوار اٹھا جاتا ہے موت کی وادئ ظلمت میں علم کھولے ہوئے کارواں
تو نہیں ہے نہ سہی تیری محبت کا خیال
تو نہیں ہے نہ سہی تیری محبت کا خیال ڈھونڈھ لیتا ہے تجھے حسن کی نظاروں میں مسکراتا ہے دم صبح افق سے کوئی رقص
ماں کی آغوش میں ہنستا ہوا اک طفل جمیل
ماں کی آغوش میں ہنستا ہوا اک طفل جمیل جس طرح ذہن ازل میں ہو ابد کی تخیئل دیکھ لیں وہ جو سمجھتے ہیں کہ
تو نے خود تلخ بنا رکھی ہے دنیا اپنی
تو نے خود تلخ بنا رکھی ہے دنیا اپنی زندگی کتنی حسیں ہے تجھے معلوم نہیں ہے جو گہری سی شکن وقت کی پیشانی پر
یہ حکومت کے پجاری ہیں یہ دولت کے غلام
یہ حکومت کے پجاری ہیں یہ دولت کے غلام جو جہنم کی مصیبت سے ڈراتے ہیں مجھے خود تو دنیا میں بنا لیتے ہیں جنت
Short Stories
چہرو مانجھی
ہوا بہت دھیمے سروں میں گا رہی تھی، دریا کا پانی آہستہ آہستہ گنگنا رہا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے یہ نغمہ بڑا پرشور تھا لیکن
لچھمی
کارخانوں کی لمبی اور بھدی چمنیوں سے دھواں مزدوروں کی آہوں کی طرح باہر آ رہا تھا اور چاروں طرف جلی ہوئی راکھ کی بو
آؤ ہم اس دنیا سے نکل چلیں
آؤ ہم اور تم محبت کے شور انگیز دریا کو تیر کر دوسرے ساحل پر جا اتریں۔ اس ریتیلے ساحل کو جس پر ہم کھڑے
Articles
اقبال کی غزل
اقبال کی غزل میں حافظ کی سرشاری، غالب کی بلندی فکر اور رومی کے دل کی بےتابی ہے اور اس کے سوا کچھ اوربھی جو
پابلونرودا کی شخصیت
کتابوں کی دکانوں پر جانا اور وہاں گھنٹوں نئی کتابوں کی ورق گردانی کرنا میری پرانی عادت ہے۔ کتابوں کی خریداری ایک ادیب اور شاعر
میر تقی میر کی شاعری
میران معنوں میں عشقیہ شاعرنہیں ہیں جن معنوں میں بعض نقاد یا نیم رومانی شاعر اردو کی ساری شاعری کوجنسیات تک محدود کر دینا چاہتے
غالب : تمنا کا دوسرا قدم
ہوں گرمی نشاط تصور سے نغمہ سنج میں عندلیب گلشن نا آفریدہ ہوں دگر خواہی کہ بینی چشمہ حیواں بتاریکی سواد نظم و نثر غالبؔ
ہم دونوں میر کے عاشق ہیں
خوشی کی بات ہے کہ ’’کتاب نما‘‘ کی یہ خصوصی اشاعت شمس الرحمن فاروقی کے نام سے منسوب ہے۔ شمس الرحمٰن شاعر بھی ہیں اور
کبیر : حرف محبت
بڑی شاعری کی یہ عجیب وغریب خصوصیت ہے کہ وہ اکثر و بیشتر اپنے خالق سے بے نیاز ہو جاتی ہے، پھر اس کے وجود
میر : صبا دربدر
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا تمہید شاعر کو تلمیذ رحمانی بھی کہا گیا ہے
لکھنؤ کی پانچ راتیں
پہلی رات راج سنگھاسن ڈانواڈول لکھنؤ کی فضا میں ایک نئی آزادی کا احساس تھا، ۱۹۳۷ء میں کانگریس کی پہلی وزارت بنی تھی۔ کھدر کے