Ahmad Nadeem Qasmi
- 20 November 1916-10 July 2006
- Angah, Khushab District, British India
Introduction
انہیں 1968 میں صدر پاکستان سے فخر آف پرفارمنس ایوارڈ ملا.
1980 میں انہیں پاکستان کے صدر کی طرف سے ستارہ-ای-امتیاز ایوارڈ ملا.
لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ.
اسلام آباد 7 ویں ایوینیو کا نام احمد ندیم قاسمی کے نام پر رکھا گیا ہے.
Ghazal
جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی
جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا تیرا در چھوڑ کے میں اور
انداز ہو بہو تری آواز پا کا تھا
انداز ہو بہو تری آواز پا کا تھا دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا اس حسن اتفاق پہ لٹ کر بھی
تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں جہاں تک دیکھوں
تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں جہاں تک دیکھوں حسن یزداں سے تجھے حسن بتاں تک دیکھوں تو نے یوں دیکھا ہے جیسے کبھی دیکھا
جانے کہاں تھے اور چلے تھے کہاں سے ہم
جانے کہاں تھے اور چلے تھے کہاں سے ہم بیدار ہو گئے کسی خواب گراں سے ہم اے نو بہار ناز تری نکہتوں کی خیر
جی چاہتا ہے فلک پہ جاؤں
جی چاہتا ہے فلک پہ جاؤں سورج کو غروب سے بچاؤں بس میرا چلے جو گردشوں پر دن کو بھی نہ چاند کو بجھاؤں میں
ہر لمحہ اگر گریز پا ہے
ہر لمحہ اگر گریز پا ہے تو کیوں مرے دل میں بس گیا ہے چلمن میں گلاب سنبھل رہا ہے یہ تو ہے کہ شوخی
اب تو شہروں سے خبر آتی ہے دیوانوں کی
اب تو شہروں سے خبر آتی ہے دیوانوں کی کوئی پہچان ہی باقی نہیں ویرانوں کی اپنی پوشاک سے ہشیار کہ خدام قدیم دھجیاں مانگتے
لب خاموش سے افشا ہوگا
لب خاموش سے افشا ہوگا راز ہر رنگ میں رسوا ہوگا دل کے صحرا میں چلی سرد ہوا ابر گلزار پہ برسا ہوگا تم نہیں
میں کسی شخص سے بیزار نہیں ہو سکتا
میں کسی شخص سے بیزار نہیں ہو سکتا ایک ذرہ بھی تو بیکار نہیں ہو سکتا اس قدر پیار ہے انساں کی خطاؤں سے مجھے
سانس لینا بھی سزا لگتا ہے
سانس لینا بھی سزا لگتا ہے اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے کوہ غم پر سے جو دیکھوں تو مجھے دشت آغوش فنا لگتا
اپنے ماحول سے تھے قیس کے رشتے کیا کیا
اپنے ماحول سے تھے قیس کے رشتے کیا کیا دشت میں آج بھی اٹھتے ہیں بگولے کیا کیا عشق معیار وفا کو نہیں کرتا نیلام
Nazm
ایک درخواست
زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پہ بند ہیں دیکھنا حد نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے سوچنا اپنے عقیدوں اور یقینوں
پتھر
ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فن کار ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لا دوں میں ترے سامنے انبار لگا دوں
اظہار
تجھے اظہار محبت سے اگر نفرت ہے تو نے ہونٹوں کو لرزنے سے تو روکا ہوتا بے نیازی سے مگر کانپتی آواز کے ساتھ تو
ایک نظم
چھٹپٹے کے غرفے میں لمحے اب بھی ملتے ہیں صبح کے دھندلکے میں پھول اب بھی کھلتے ہیں اب بھی کوہساروں پر سر کشیدہ ہریالی
اگر ہے جذبۂ تعمیر زندہ
اگر ہے جذبۂ تعمیر زندہ تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے جہاں سے پھول ٹوٹا تھا وہیں سے کلی سی اک نمایاں
بہت سے بچوں کا گھر
ابا تو چلے گئے ہیں دفتر امی کو بخار آ رہا ہے چھمن تو گیا ہوا ہے بازار جمن کھانا پکا رہا ہے زیبن کو
لرزتے سائے
وہ فسانہ جسے تاریکی نے دہرایا ہے میری آنکھوں نے سنا میری آنکھوں میں لرزتا ہوا قطرہ جاگا میری آنکھوں میں لرزتے ہوئے قطرے نے
بیسویں صدی کا انسان
مجھے سمیٹو میں ریزہ ریزہ بکھر رہا ہوں نہ جانے میں بڑھ رہا ہوں یا اپنے ہی غبار سفر میں ہر پل اتر رہا ہوں
پابندی
مرے آقا کو گلہ ہے کہ مری حق گوئی راز کیوں کھولتی ہے اور میں پوچھتا ہوں تیری سیاست فن میں زہر کیوں گھولتی ہے
جنگل کی آگ
آگ جنگل میں لگی تھی لیکن بستیوں میں بھی دھواں جا پہنچا ایک اڑتی ہوئی چنگاری کا سایہ پھیلا تو کہاں جا پہنچا تنگ گلیوں
مجھے تلاش کرو
شجر سے ٹوٹ کے جب میں گرا کہاں پہ گرا مجھے تلاش کرو جن آندھیوں نے مری سر زمیں ادھیڑی تھی وہ آج مولد عیسیٰ
پس آئینہ
مجھے جمال بدن کا ہے اعتراف مگر میں کیا کروں کہ ورائے بدن بھی دیکھتا ہوں یہ کائنات فقط ایک رخ نہیں رکھتی چمن بھی
Sher
جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی
جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی احمد ندیم قاسمی
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا احمد ندیم قاسمی
جس بھی فن کار کا شہکار ہو تم
جس بھی فن کار کا شہکار ہو تم اس نے صدیوں تمہیں سوچا ہوگا احمد ندیم قاسمی
اک سفینہ ہے تری یاد اگر
اک سفینہ ہے تری یاد اگر اک سمندر ہے مری تنہائی احمد ندیم قاسمی
آخر دعا کریں بھی تو کس مدعا کے ساتھ
آخر دعا کریں بھی تو کس مدعا کے ساتھ کیسے زمیں کی بات کہیں آسماں سے ہم احمد ندیم قاسمی
میں نے سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے
میں نے سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی احمد ندیم قاسمی
تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا
تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی احمد ندیم قاسمی
اب ترے شہر میں آؤں گا مسافر کی طرح
اب ترے شہر میں آؤں گا مسافر کی طرح سایۂ ابر کی مانند گزر جاؤں گا احمد ندیم قاسمی
مر جاتا ہوں جب یہ سوچتا ہوں
مر جاتا ہوں جب یہ سوچتا ہوں میں تیرے بغیر جی رہا ہوں احمد ندیم قاسمی
مسافر ہی مسافر ہر طرف ہیں
مسافر ہی مسافر ہر طرف ہیں مگر ہر شخص تنہا جا رہا ہے احمد ندیم قاسمی
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیمؔ
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیمؔ بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا احمد ندیم قاسمی
خدا کرے کہ تری عمر میں گنے جائیں
خدا کرے کہ تری عمر میں گنے جائیں وہ دن جو ہم نے ترے ہجر میں گزارے تھے احمد ندیم قاسمی
Short Stories
کپاس کا پھول
مائی تاجو ہر رات کو ایک گھنٹے تو ضرور سو لیتی تھی لیکن اس رات غصے نے اسے اتنا سا بھی سونے کی مہلت نہ
الحمدللّٰہ
شادی سے پہلے مولوی ابل کے بڑے ٹھاٹھ تھے۔ کھدر یا لٹھے کی تہبند کی جگہ گلابی رنگ کی سبز دھاری والی ریشمی خوشابی لنگی،
پرمیشر سنگھ
اختر اپنی ماں سے یوں اچانک بچھڑ گیا جیسے بھاگتے ہوئے کسی جیب سے روپیہ گر پڑے۔ ابھی تھا اور ابھی غائب۔ ڈھنڈیا پڑی مگر
عالاں
اماں ابھی دہی بلو رہی تھیں کہ وہ مٹی کا پیالہ لئے آ نکلی۔ یہ دیکھ کر کہ ابھی مکھن ہی نہیں نکالا گیا تو
گنڈاسا
اکھاڑہ جم چکا تھا۔ طرفین نے اپنی اپنی ’’چوکیاں‘‘ چن لی تھیں۔ ’’پڑکوڈی‘‘ کے کھلاڑی جسموں پر تیل مل کر بجتے ہوئے ڈھول کے گرد
مامتا
پنجاب سے مجھے برطانیہ کے ایک افسر نے بھرتی کیا اور چین کے ایک جزیرے ہانگ کانگ بھیج دیا، جہاں چینی بستے تھے اور انگریز
بابا نور
’’کہاں چلے بابا نور؟‘‘ ایک بچے نے پوچھا۔ ’’بس بھئی، یہیں ذرا ڈاک خانے تک۔‘‘ بابا نور بڑی ذمے دارانہ سنجیدگی سے جواب دے کر
الجھن
رات آئی، خیر کے لیے ہاتھ اٹھائے گئے اور اس کے بیاہ کا اعلان کیا گیا۔۔۔ وہ لال دوپٹے میں سمٹی ہوئی سوچنے لگی کہ
بین
بس کچھ ایسا ہی موسم تھا میری بچی، جب تم سولہ سترہ سال پہلے میری گود میں آئی تھیں۔ بکائن کے اودے اودے پھول اسی
گل رخے
میں اس قسم کی ہنگامی رقت کا عادی ہو چکا ہوں۔ کسی کو روتا دیکھ کر، خصوصاً مرد کو اور پھر اتنے تنومند اور وجیہہ
موچی
چمڑے کے دو ٹکڑے مونج کی موٹی سی رسی سے سلے ہوئے تھے۔ نادر نے مونج کی سیون کو بھگوکر چھرے سے کاٹتے ہوئے کہا،
وحشی
’’آ گئی۔‘‘ ہجوم میں سے کوئی بولا اور سب لوگ یوں دو دو قدم آگے بڑھ گئے جیسے دو دو قدم پیچھے کھڑے رہتے تو
Qita
گلی کے موڑ پہ بچوں کے ایک جمگھٹ میں
گلی کے موڑ پہ بچوں کے ایک جمگھٹ میں کسی نے درد بھرے لے میں ماہیا گایا مجھے کسی سے محبت نہیں مگر اے دل
داور حشر مجھے تیری قسم
داور حشر مجھے تیری قسم عمر بھر میں نے عبادت کی ہے تو مرا نامۂ اعمال تو دیکھ میں نے انساں سے محبت کی ہے
تری زلفیں ہیں کہ ساون کی گھٹا چھائی ہے
تری زلفیں ہیں کہ ساون کی گھٹا چھائی ہے تیرے عارض ہیں کہ پھولوں کو ہنسی آئی ہے یہ ترا جسم ہے یا صبح کی
تمتماتے ہیں سلگتے ہوئے رخسار ترے
تمتماتے ہیں سلگتے ہوئے رخسار ترے آنکھ بھر کر کوئی دیکھے گا تو جل جائے گا اتنا سیال ہے یہ پل کہ گماں ہوتا ہے
کنج زنداں میں پڑا سوچتا ہوں
کنج زنداں میں پڑا سوچتا ہوں کتنا دلچسپ نظارہ ہوگا یہ سلاخوں میں چمکتا ہوا چاند تیرے آنگن میں بھی نکلا ہوگا احمد ندیم قاسمی
وہ دور جھیل کے پانی میں تیرتا ہے چاند
وہ دور جھیل کے پانی میں تیرتا ہے چاند پہاڑیوں کے اندھیروں پہ نور چھانے لگا وہ ایک کھوہ میں اک بد نصیب چرواہا بھگو
ممکن ہے فضاؤں سے خلاؤں کے جہاں تک
ممکن ہے فضاؤں سے خلاؤں کے جہاں تک جو کچھ بھی ہو آدم کا نشان کف پا ہو ممکن ہے کہ جنت کی بلندی سے
بوڑھے ماں باپ بلکتے ہوئے گھر کو پلٹے
بوڑھے ماں باپ بلکتے ہوئے گھر کو پلٹے چونک اٹھے ہیں وہ شہنائی بجانے والے اف بچھڑتی ہوئی دوشیزہ کے نالوں کا اثر ڈولتے جاتے
گلوں میں رنگ تو تھا رنگ میں جلن تو نہ تھی
گلوں میں رنگ تو تھا رنگ میں جلن تو نہ تھی مہک میں کیف تو تھا کیف میں جنوں تو نہ تھا بدل دیا ترے
آج پنگھٹ پہ یہ گاتا ہوا کون آ نکلا
آج پنگھٹ پہ یہ گاتا ہوا کون آ نکلا لڑکیاں گاگریں بھرتی ہوئی گھبرا سی گئیں اوڑھنی سر پہ جما کر وہ صبوحی اٹھی انکھڑیاں
آنکھ کھل جاتی ہے جب رات کو سوتے سوتے
آنکھ کھل جاتی ہے جب رات کو سوتے سوتے کتنی سونی نظر آتی ہے گزر گاہ حیات ذہن و وجدان میں یوں فاصلے تن جاتے
بات کہنے کا جو ڈھب ہو تو ہزاروں باتیں
بات کہنے کا جو ڈھب ہو تو ہزاروں باتیں ایک ہی بات میں کہہ جاتے ہیں کہنے والے لیکن ان کے لیے ہر لفظ کا