Sulaiman Areeb
- 05 April 1922-07 September 1970
- Hyderabad, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Sulaiman Areeb was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
بھیس کیا کیا نہ زمانے میں بنائے ہم نے
بھیس کیا کیا نہ زمانے میں بنائے ہم نے ایک چہرے پہ کئی چہرے لگائے ہم نے اس تمنا میں کہ اس راہ سے تو
کوئی دشمن کوئی ہمدم بھی نہیں ساتھ اپنے
کوئی دشمن کوئی ہمدم بھی نہیں ساتھ اپنے تو نہیں ہے تو دو عالم بھی نہیں ساتھ اپنے ساتھ کچھ دور ترے ہم بھی گئے
میرا سایہ ہے مرے ساتھ جہاں جاؤں میں
میرا سایہ ہے مرے ساتھ جہاں جاؤں میں بے بسی تو ہی بتا خود کو کہاں پاؤں میں بے گھری مجھ سے پتہ پوچھ رہی
حساب عمر کرو یا حساب جام کرو
حساب عمر کرو یا حساب جام کرو بقدر ظرف شب غم کا اہتمام کرو اگر ذرا بھی روایت کی پاسداری ہے خرد کے دور میں
تمہاری قید وفا سے جو چھوٹ جاؤں گا
تمہاری قید وفا سے جو چھوٹ جاؤں گا ازل سے لے کے ابد تک میں ٹوٹ جاؤں گا خبر نہیں ہے کسی کو بھی خستگی
پیار کا درد کا مذہب نہیں ہوتا کوئی
پیار کا درد کا مذہب نہیں ہوتا کوئی کعبہ و دیر سے مطلب نہیں ہوتا کوئی سچ تو یہ ہے کہ میں ہر بزم میں
نہیں جو تیری خوشی لب پہ کیوں ہنسی آئے
نہیں جو تیری خوشی لب پہ کیوں ہنسی آئے یہی بہت ہے کہ آنکھوں میں کچھ نمی آئے اندھیری رات میں کاسہ بدست بیٹھا ہوں
ہر بات تری جان جہاں مان رہا ہوں
ہر بات تری جان جہاں مان رہا ہوں اب خاک رہ کاہکشاں چھان رہا ہوں اصنام سے دیرینہ تعلق کی بدولت میں کفر کا ہر
غم کدے وہ جو ترے گام سے جل اٹھتے ہیں
غم کدے وہ جو ترے گام سے جل اٹھتے ہیں بت کدے وہ جو مرے نام سے جل اٹھتے ہیں رات تاریک سہی میری طرف
نظام شمس و قمر کتنے دست خاک میں ہیں
نظام شمس و قمر کتنے دست خاک میں ہیں زمانے جیسے تری چشم خوابناک میں ہیں شراب و شعر میں عریاں تو ہو گئے لیکن
جو تیرے حسن میں نرمی بھی بانکپن بھی ہے
جو تیرے حسن میں نرمی بھی بانکپن بھی ہے وہ کیف تازہ بھی ہے نشۂ کہن بھی ہے مجھے تو چین سے رہنے دے اے
جو پا کر بھی کچھ نہیں کھوتے وہ روتے ہیں اس دنیا میں
جو پا کر بھی کچھ نہیں کھوتے وہ روتے ہیں اس دنیا میں آنسو ہوں دامن پہ کسی کے ہم دھوتے ہیں اس دنیا میں
Nazm
تم کس سے ملنے آئے ہو
تم کس سے ملنے آئے ہو کس چہرے سے کام ہے تم کو کن آنکھوں سے بات کرو گے تم جو چہرہ دیکھ رہے ہو
عرفان
میرے باپ نے مرتے دم بھی مجھ سے بس یہ بات کہی تھی گردن بھی اڑ جائے میری سچ بولوں میں جھوٹ نہ بولوں اس
یہ ہاتھ
یہ ہاتھ کتنے حسیں کتنے خوب صورت ہیں یہ ہاتھ جن پہ ہے اک جال سا لکیروں کا لکیریں جن میں ہیں صدیوں کے ارتقا
خود فراموشی
چلا تھا گھر سے کہ بچے کی فیس دینی تھی کہا تھا بیوی نے بیچ آؤں بالیاں اس کی کہ گھر کا خرچ چلے اور
قاتل بے چہرہ
شراب پی کے یہ احساس مجھ کو ہوتا ہے کہ جیسے میں ہی خدا ہوں خدا کا بیٹا ہوں خدائی جس کو چڑھاتی رہی ہے
آخری لفظ پہلی آواز
کن حرفوں میں جان ہے میری کن لفظوں پر دم نکلے گا سوچ رہا ہوں ابجد ساری یاد ہے مجھ کو لیکن اس سے کیا
ابلاغ
گلا رندھا ہو تو ہم بات کر نہیں سکتے اشاروں اور کنایوں سے اپنے مطلب کو بجائے کانوں کے آنکھوں پہ تھوپ دیتے ہیں گلا
ڈیپ فریز
پچھلی کتنی راتوں سے میں خواب یہی ایک دیکھ رہا ہوں ہاتھ یہ میرے ہاتھ نہیں ہیں پاؤں یہ میرے پاؤں نہیں ہیں ان کے
ایجاز
لفظوں کو بیکار نہ خرچو لفظوں سے پل پل سے نظمیں نظموں سے اظہار انا کے کتنے دریچے کھل جاتے ہیں ایجاز سے کہہ دو
میں خود سے مایوس نہیں ہوں
میں خود سے مایوس نہیں ہوں انساں سے مایوس ہوں تھوڑا دھرتی پر آنے سے پہلے وہ اور میں ساتھ رہا کرتے تھے جنت میں
تمہیں کیا
یں اپنی زندگی کی نوٹ بک سے کتنی راتیں کتنے دن کاٹوں کہ اک اک رات میں کتنی قیامت خیز راتیں مجھ پہ ٹوٹی ہیں
تسکین انا
جب کوئی قرض صداقت کا چکانے کے لیے زہر کا درد تہ جام بھی پی لیتا ہے اپنا سر ہنس کے کٹا دیتا ہے زندگی
Sher
بے تاج ہوں بے تخت ہوں بے ملک و حکومت
بے تاج ہوں بے تخت ہوں بے ملک و حکومت ہاں نام کا لیکن میں سلیمانؔ رہا ہوں سلیمان اریب
میں نے کس دل سے شب غم کی سحر کی ہے اریبؔ
میں نے کس دل سے شب غم کی سحر کی ہے اریبؔ یاد آئے گی زمانے کو مری بے جگری سلیمان اریب
اریبؔ دیکھو نہ اتراؤ چند شعروں پر
اریبؔ دیکھو نہ اتراؤ چند شعروں پر غزل وہ فن ہے کہ غالبؔ کو تم سلام کرو سلیمان اریب
ایک حمام میں تبدیل ہوئی ہے دنیا
ایک حمام میں تبدیل ہوئی ہے دنیا سب ہی ننگے ہیں کسے دیکھ کے شرماؤں میں سلیمان اریب