Raza Naqvi Wahi
- 19 January 1914-5 January 2002
- Khujwa, Siwan, Bihar, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Raza Naqvi Wahi was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Nazm
غالب صدی اور اردو
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے یعنی اردوئے معلیٰ کا مآل اچھا ہے بات کڑوی سہی لیکن ہمیں کہنے دیجے دل
نیا ہاتھی
شادیاں ہوتی تھیں جب پہلے کسی دیہات میں چند ہاتھی بھی منگائے جاتے تھے بارات میں تاکہ کچھ باراتیوں پر رعب سمدھی کا پڑے اور
گھر کی رونق
ہم اپنے اہل سیاست کے دل سے قائل ہیں کہ حق میں قوم کے وہ مادر مسائل ہیں قدم قدم پہ نئے گل کھلاتے رہتے
لیڈر
لیڈر کو اگر آپ کبھی ڈھونڈھنا چاہیں وہ پچھلے پہر حجرہ دلبر میں ملے گا اور صبح کو وہ بندہ اغراض و مقاصد سر خم
دل بدلی
چلتے چلتے دفعتاً پٹری بدلنے کا چلن تھا سیاست کے قلابازوں کا یک مشہور فن فائدہ ہوتا تھا وقتی طور پر اس کھیل میں گو
ریل کا سفر
درپیش اچانک جو ہوئی ایک ضرورت واہیؔ سے ہوئی ریل پہ چڑھنے کی حماقت آ دھمکی ذرا وقت سے پہلے ہی وہ گاڑی واہیؔ نے
ریلیاں ہی ریلیاں
یہ ہمارا شہر جو شہر کلیمؔ و شادؔ ہے دوست اس کا آج کل چرخ ستم ایجاد ہے اک زمانہ تھا کہ گنگا کا یہ
دستور سازی کی کوشش
یوں تو ہر شاعر کی فطرت میں ہے کچھ دیوانگی غیر ذمہ داریاں ہیں اس کی جزو زندگی ارض شعرستان میں یہ شاعرانہ خاصیت کینسر
شاعر
شاعر کو اگر آپ کبھی ڈھونڈھنا چاہیں وہ پچھلے پہر فکر کی دلدل میں ملے گا اور صبح کو آئینہ لئے سامنے اپنے اشعار تغزل
بھوک
علی الصباح کہ دنیا تھی محو خواب ابھی چھپا تھا حجرہ مشرق میں آفتاب ابھی فلک پہ انجمن شب کا تھا اثر باقی گھرا ہوا
نقاد
نقاد سے ملنا ہے خطرناک کہ ہر دم وہ حالت تبخیر تخیل میں ملے گا دن رات وہ اک خاص اکڑفوں کی ادا سے ذہنیت
مہمان خصوصی
ایک دن حضرت حافظ نے یہ دیکھا منظر طوق زریں سے مزین ہے ہمہ گردن خر اور چھکڑے میں جتا رینگ رہا ہے تازی زخم
Sher
جشن غالب نے جو بخشی ہے ذرا سی رونق
جشن غالب نے جو بخشی ہے ذرا سی رونق وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے رضا نقوی واہی
ان کی آمد سے بھی مچ جاتی ہے چاروں سمت دھوم
ان کی آمد سے بھی مچ جاتی ہے چاروں سمت دھوم گھیر لیتا ہے انہیں بھی گاؤں والوں کا ہجوم رضا نقوی واہی
ہے ایک بات جو موضوع گفتگو بنتی
ہے ایک بات جو موضوع گفتگو بنتی ملے جو آپ تو کم بخت یاد ہی نہ رہی رضا نقوی واہی
Humour/Satire
اپیل
امیدوار تھا واہیؔ بھی ممبری کے لئے کہ شارٹ کٹ ہے یہی اک تونگری کے لئے مگر بہ فیض حریفاں اسے ٹکٹ نہ ملا پھنسا
شاعر بسیار گو
شاعر بسیار گو سے ہے یہ میری التماس آپ یوں للہ سامع کو نہ کیجے بد حواس مختصر سی رسم ختنہ اور اس پر تیس
گھریلو منصوبہ بندی
اب کے بیگم مری میکے سے جو واپس آئیں ایک مرغی بھی بصد شوق وہاں سے لائیں میں نے پوچھا کہ مری جان ارادہ کیا
لیلائے کرپشن
آئی ہے مرے شہر میں اک شوخ حسینہ سرشار جوانی ہے کہ ساون کا مہینہ رعنائی کے تیور ہیں کہ طوفاں کا قرینہ اک محشر