Waheed Akhtar
- 12 August 1934-13 December 1996
- Aurangabad, Decaan, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
تو غزل بن کے اتر بات مکمل ہو جائے
تو غزل بن کے اتر بات مکمل ہو جائے منتظر دل کی مناجات مکمل ہو جائے عمر بھر ملتے رہے پھر بھی نہ ملنے پائے
اندھیرا اتنا نہیں ہے کہ کچھ دکھائی نہ دے
اندھیرا اتنا نہیں ہے کہ کچھ دکھائی نہ دے سکوت ایسا نہیں ہے جو کچھ سنائی نہ دے جو سننا چاہو تو بول اٹھیں گے
سفر ہی بعد سفر ہے تو کیوں نہ گھر جاؤں
سفر ہی بعد سفر ہے تو کیوں نہ گھر جاؤں ملیں جو گم شدہ راہیں تو لوٹ کر جاؤں سمیٹوں خود کو تو دنیا کو
دفتر لوح و قلم یا در غم کھلتا ہے
دفتر لوح و قلم یا در غم کھلتا ہے ہونٹ کھلتے ہیں تو اک باب ستم کھلتا ہے حرف انکار ہے کیوں نار جہنم کا
جس کو مانا تھا خدا خاک کا پیکر نکلا
جس کو مانا تھا خدا خاک کا پیکر نکلا ہاتھ آیا جو یقیں وہم سراسر نکلا اک سفر دشت خرابی سے سرابوں تک ہے آنکھ
رات بھر خواب کے دریا میں سویرا دیکھا
رات بھر خواب کے دریا میں سویرا دیکھا دن کے ساحل پہ جو اترے تو اندھیرا دیکھا خود کو لکھا بھی ہے میں نے ہی
زبان خلق پہ آیا تو اک فسانہ ہوا
زبان خلق پہ آیا تو اک فسانہ ہوا وہ لفظ صوت و صدا سے جو آشنا نہ ہوا بلائے جاں بھی ہے جاں بخش بھی
ہم نے دیکھا ہے محبت کا سزا ہو جانا
ہم نے دیکھا ہے محبت کا سزا ہو جانا صبح دیدار کا بھی شام ملا ہو جانا پہلے اتنا نہ پراگندہ مزاج دل تھا بے
آگ اپنے ہی دامن کی ذرا پہلے بجھا لو
آگ اپنے ہی دامن کی ذرا پہلے بجھا لو فرصت ہو تو پھر ہم کو بھی جلنے سے بچا لو اے قسمت فردا کے خوش
عمر کو کرتی ہیں پامال برابر یادیں
عمر کو کرتی ہیں پامال برابر یادیں مرنے دیتی ہیں نہ جینے یہ ستم گر یادیں ہیں کبھی خون تمنا کی شناور یادیں شاخ دل
اک دشت بے اماں کا سفر ہے چلے چلو
اک دشت بے اماں کا سفر ہے چلے چلو رکنے میں جان و دل کا ضرر ہے چلے چلو حکام و سارقین کی گو رہگزر
ہم کو منظور تمہارا جو نہ پردا ہوتا
ہم کو منظور تمہارا جو نہ پردا ہوتا سارا الزام سر اپنے ہی نہ آیا ہوتا دوست احباب بھی بے گانے نظر آتے ہیں کاش
Nazm
پتھروں کا معنی
مطرب خوشنوا زندگی کے حسین گیت گاتا رہا اس کی آواز پر انجمن جھوم اٹھی اس نے جب زخم دل کو زباں بخش دی سننے
ماورا
راہ چلتے ہوئے اک موڑ پہ دور از امید آنکھ جھپکی تو مرے سامنے وہ شوخ پری پیکر تھا میرے پہلو سے وہ گزرا مگر
آگہی کی دعا
اے خدا اے خدا میں ہوں مصروف تسبیح و حمد و ثنا گو بظاہر عبادت کی عادت نہیں ہے رند مشرب ہوں زہد و ریاضت
کھنڈر آسیب اور پھول
یہ بھی طلسم ہوشربا ہے زندہ چلتے پھرتے ہنستے روتے نفرت اور محبت کرتے انساں صرف ہیولے اور دھویں کے مرغولے ہیں ہم سب اپنی
توانا خوب صورت جسم
اعضا کا تناسب رگوں میں دوڑتے زندہ جواں سرشار خوں کی گنگناہٹ ہمیں دیتے ہیں دعوت عشق کی لیکن ہماری چشم آہن پوش پیراہن شناسا
دیمک
کرم خوردہ کاغذوں کے ڈھیر میں مدفون ہے چاٹتا ہے حرف حرف دائرے قوسین سن تاریخ اعداد و شمار نقطہ و زیر و زبر تشدید
شب و روز تماشہ
ذہن جب تک ہے خیالات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے ہونٹ جب تک ہیں سوالات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے بحث کرتے رہو لکھتے رہو
پرومیتھیس
اگر میں کہتا ہوں جینا ہے قید تنہائی تو زندگانی کی قیمت پہ حرف کیوں آئے اگر نہ آیا مجھے سازگار وصل حبیب تو اعتماد
موت کی جستجو
چہرے روحوں کی بے مائیگی ذہن کی تیرگی کے سیہ آئنے سرد آنکھوں کے تاریک روزن میں دبکا ہوا اک خلا ایک سناٹا ہونٹوں کے
Sher
عمر بھر ملتے رہے پھر بھی نہ ملنے پائے
عمر بھر ملتے رہے پھر بھی نہ ملنے پائے اس طرح مل کہ ملاقات مکمل ہو جائے وحید اختر
جو سننا چاہو تو بول اٹھیں گے اندھیرے بھی
جو سننا چاہو تو بول اٹھیں گے اندھیرے بھی نہ سننا چاہو تو دل کی صدا سنائی نہ دے وحید اختر
مانگنے والوں کو کیا عزت و رسوائی سے
مانگنے والوں کو کیا عزت و رسوائی سے دینے والوں کی امیری کا بھرم کھلتا ہے وحید اختر
ہزاروں سال سفر کر کے پھر وہیں پہنچے
ہزاروں سال سفر کر کے پھر وہیں پہنچے بہت زمانہ ہوا تھا ہمیں زمیں سے چلے وحید اختر
بے برسے گزر جاتے ہیں امڈے ہوئے بادل
بے برسے گزر جاتے ہیں امڈے ہوئے بادل جیسے انہیں میرا ہی پتا یاد نہیں ہے وحید اختر
جو سننا چاہو تو بول اٹھیں گے اندھیرے بھی
جو سننا چاہو تو بول اٹھیں گے اندھیرے بھی نہ سننا چاہو تو دل کی صدا سنائی نہ دے وحید اختر
تو غزل بن کے اتر بات مکمل ہو جائے
تو غزل بن کے اتر بات مکمل ہو جائے منتظر دل کی مناجات مکمل ہو جائے وحید اختر
عمر بھر ملتے رہے پھر بھی نہ ملنے پائے
عمر بھر ملتے رہے پھر بھی نہ ملنے پائے اس طرح مل کہ ملاقات مکمل ہو جائے وحید اختر
ہر ایک لمحہ کیا قرض زندگی کا ادا
ہر ایک لمحہ کیا قرض زندگی کا ادا کچھ اپنا حق بھی تھا ہم پر وہی ادا نہ ہوا وحید اختر
دشت کی اڑتی ہوئی ریت پہ لکھ دیتے ہیں لوگ
دشت کی اڑتی ہوئی ریت پہ لکھ دیتے ہیں لوگ یہ زمیں میری یہ دیوار یہ در میرا ہے وحید اختر
اندھیرا اتنا نہیں ہے کہ کچھ دکھائی نہ دے
اندھیرا اتنا نہیں ہے کہ کچھ دکھائی نہ دے سکوت ایسا نہیں ہے جو کچھ سنائی نہ دے وحید اختر
کل جہاں ظلم نے کاٹی تھیں سروں کی فصلیں
کل جہاں ظلم نے کاٹی تھیں سروں کی فصلیں نم ہوئی ہے تو اسی خاک سے لشکر نکلا وحید اختر