Obaidullah Aleem
- 12 June 1939 - 18 May 1998
- Bhopal, India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے ملے ہیں یوں تو بہت آؤ اب
کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا
کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا میں کیسا زندہ آدمی تھا اک شخص نے مجھ کو مار دیا اک
خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی
خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کو مہر
کچھ دن تو بسو مری آنکھوں میں (ردیف)
کچھ دن تو بسو مری آنکھوں میں پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا کوئی رنگ تو دو مرے چہرے کو پھر زخم اگر مہکاؤ
ہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے
ہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے ہم بہرحال بسر خواب تمہارا کرتے ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم خاک کو
میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں
میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں کوئی غنچہ ہو کہ
خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں
خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں کاش تجھ کو بھی اک جھلک دیکھوں چاندنی کا سماں تھا اور ہم تم اب ستارے پلک پلک دیکھوں
تو اپنی آواز میں گم ہے میں اپنی آواز میں چپ
تو اپنی آواز میں گم ہے میں اپنی آواز میں چپ دونوں بیچ کھڑی ہے دنیا آئینۂ الفاظ میں چپ اول اول بول رہے تھے
وحشتیں کیسی ہیں خوابوں سے الجھتا کیا ہے
وحشتیں کیسی ہیں خوابوں سے الجھتا کیا ہے ایک دنیا ہے اکیلی تو ہی تنہا کیا ہے داد دے ظرف سماعت تو کرم ہے ورنہ
عجیب تھی وہ عجب طرح چاہتا تھا میں
عجیب تھی وہ عجب طرح چاہتا تھا میں وہ بات کرتی تھی اور خواب دیکھتا تھا میں وصال کا ہو کہ اس کے فراق کا
آؤ تم ہی کرو مسیحائی
آؤ تم ہی کرو مسیحائی اب بہلتی نہیں ہے تنہائی تم گئے تھے تو ساتھ لے جاتے اب یہ کس کام کی ہے بینائی ہم
زمین جب بھی ہوئی کربلا ہمارے لیے
زمین جب بھی ہوئی کربلا ہمارے لیے تو آسمان سے اترا خدا ہمارے لیے انہیں غرور کہ رکھتے ہیں طاقت و کثرت ہمیں یہ ناز
Nazm
وجود اپنا مجھے دے دو
تمہارے ہیں کہو اک دن کہو اک دن کہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے سب کچھ تمہارا ہے کہو اک دن جسے تم چاند
یاد
کبھی کبھی کوئی یاد کوئی بہت پرانی یاد دل کے دروازے پر ایسے دستک دیتی ہے شام کو جیسے تارا نکلے صبح کو جیسے پھول
چاند چہرہ ستارے آنکھیں
مرے خدایا میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں یہ میرا چہرہ یہ میری آنکھیں بجھے ہوئے سے چراغ جیسے جو پھر سے چلنے
دعا دعا چہرہ
دعا دعا وہ چہرہ حیا حیا وہ آنکھیں صبا صبا وہ زلفیں چلے لہو گردش میں رہے آنکھ میں دل میں بسے مرے خوابوں میں
سچا جھوٹ
میں بھی جھوٹا تم بھی جھوٹے آؤ چلو تنہا ہو جائیں کون مریض اور کون مسیحا اس دکھ سے چھٹکارا پائیں آنکھیں اپنی خواب بھی
کیتھارسس
مجھے خبر ہے تمہاری آنکھوں میں جو چھپا ہے تمہارے چہرے پہ جو لکھا ہے لہو جو ہر آن بولتا ہے مجھے بتا دو اور
نمو
میں وہ شجر تھا کہ میرے سائے میں بیٹھنے اور شاخوں پہ جھولنے کی ہزاروں جسموں کو آرزو تھی زمیں کی آنکھیں درازیٔ عمر کی
مرسیہ
اداس یادوں کی مضمحل رات بیت بھی جا کہ میری آنکھوں میں اب لہو ہے نہ خواب کوئی میں سب دئیے طاق آرزو کے بجھا
الفاظ
یہ لفظ سقراط لفظ عیسیٰ میں ان کا خالق یہ میرے خالق یہی ازل ہیں یہی ابد ہیں یہی زماں ہیں یہی مکاں ہیں یہ
آئیڈیل
میری آنکھوں میں کوئی چہرہ چراغ آرزو وہ میرا آئینہ جس سے خود جھلک جاؤں کبھی ایسا موسم جیسے مے پی کر چھلک جاؤں کبھی
محبت
میں جسم و جاں کے تمام رشتوں سے چاہتا ہوں نہیں سمجھتا کہ ایسا کیوں ہے نہ خال و خد کا جمال اس میں نہ
آئینہ
میں آئینہ ہوں اور ہر آنے والے کو وہی چہرہ دکھاتا ہوں جو میرے سامنے لائے مگر اب تھک گیا ہوں چاہتا ہوں کوئی مجھ
Sher
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے عبید اللہ علیم
محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا
محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا کہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے عبید اللہ علیم
آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا عبید اللہ علیم
دعا کرو کہ میں اس کے لیے دعا ہو جاؤں
دعا کرو کہ میں اس کے لیے دعا ہو جاؤں وہ ایک شخص جو دل کو دعا سا لگتا ہے عبید اللہ علیم
ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی عبید اللہ علیم
اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمہاری خاطر
اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمہاری خاطر اتنی دور آ گئے دنیا سے کنارا کرتے عبید اللہ علیم
خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں
خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں کاش تجھ کو بھی اک جھلک دیکھوں عبید اللہ علیم
کاش دیکھو کبھی ٹوٹے ہوئے آئینوں کو
کاش دیکھو کبھی ٹوٹے ہوئے آئینوں کو دل شکستہ ہو تو پھر اپنا پرایا کیا ہے عبید اللہ علیم
ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارا کرتے عبید اللہ علیم
جو دل کو ہے خبر کہیں ملتی نہیں خبر
جو دل کو ہے خبر کہیں ملتی نہیں خبر ہر صبح اک عذاب ہے اخبار دیکھنا عبید اللہ علیم
جوانی کیا ہوئی اک رات کی کہانی ہوئی
جوانی کیا ہوئی اک رات کی کہانی ہوئی بدن پرانا ہوا روح بھی پرانی ہوئی عبید اللہ علیم
ہزار طرح کے صدمے اٹھانے والے لوگ
ہزار طرح کے صدمے اٹھانے والے لوگ نہ جانے کیا ہوا اک آن میں بکھر سے گئے عبید اللہ علیم