Bekhud Badayuni
- 17 September 1857-10 November 1912
- Badayun, India
Introduction
Ghazal
درد دِل میں کمی نہ ہو جائے
درد دِل میں کمی نہ ہو جائے دُوستی دُشمنی نہ ہو جائے تم میری دُوستی کا دم نہ بھرو آسماں مدعی نہ ہو جائے بیٹھتا
کبھی حیا انہیں آئی کبھی غرور آیا
کبھی حیا انہیں آئی کبھی غرور آیا ہمارے کام میں سو سو طرح فتور آیا ہزار شکر وُہ عاشق تُو جانتے ہیں مُجھے جُو کہتے
حاصل اِس مہ لقا کی دید نہیں
حاصل اِس مہ لقا کی دید نہیں عید ہے اُور ہم کو عید نہیں چھیڑ دیکھو کے خط تُو لکھا ہے مرے خط کی مگر
رقیبوں کا مُجھ سے گلا ہو رہا ہے
رقیبوں کا مُجھ سے گلا ہو رہا ہے یہ کیا کر رہے ہو یہ کیا ہو رہا ہے دُعا کو نہیں راہ ملتی فلک کی
کیوں میں اب قابل جفا نہ رہا
کیوں میں اب قابل جفا نہ رہا کیا ہوا کہیے مُجھ میں کیا نہ رہا اِن کی محفل میں اس کہ چرچے ہیں مُجھ سے
جس میں سودا نہیں وُہ سر ہی نہیں
جس میں سودا نہیں وُہ سر ہی نہیں درد جس میں نہیں جگر ہی نہیں لوگ کہتے ہیں وُہ بھی ہیں بے چین کچھ یہ
ہیں وصل میں شُوخی سے پابند حیا آنکھیں
ہیں وصل میں شُوخی سے پابند حیا آنکھیں اللہ رے ظالم کی مظلوم نما آنکھیں آفت میں پھنسائیں گی دیوانہ بنائیں گی وُہ غالیہ سا
کیوں میرا حال قصہ خواں سے سُنو
کیوں میرا حال قصہ خواں سے سُنو یہ کہانی میری زباں سے سُنو غم ہی غم ہے میرے فسانے میں دکھ ہی دکھ ہے اسے
پیام لے کہ جُو پیغام بر روانہ ہوا
پیام لے کہ جُو پیغام بر روانہ ہوا حسد کو حیلہ ملا اشک کو بہانہ ہوا وہ مری آہ جو شرمندۂ اثر نہ ہوئی وہ
اس بزم میں نہ ہوش رہے گا ذرا مُجھے
اس بزم میں نہ ہوش رہے گا ذرا مُجھے اے شوق ہرزہ تاز کہاں لے چلا مُجھے یہ درد دل ہی زیست کا باعث ہے
حشر پر وعدۂ دیدار ہے کس کا ترا
حشر پر وعدۂ دیدار ہے کس کا ترا لاکھ انکار اِک اقرار ہے کس کا ترا نہ دوا سے اسے مطلب نہ شفا سے سروکار
آہ کرنا دل حزیں نہ کہیں
آہ کرنا دل حزیں نہ کہیں آگ لگ جائے گی ، کہیں نہ کہیں میرے دل سے نکل کہ دنیا میں چین سے حسرتیں رہیں
Sher
کبھی حیا انہیں آئی کبھی غرور آیا
کبھی حیا انہیں آئی کبھی غرور آیا .ہمارے کام میں سو سو طرح فتور آیا بیخود بدایونی
حاصل اس مہ لقا کی دید نہیں
حاصل اس مہ لقا کی دید نہیں .عید ہے اور ہم کو عید نہیں بیخود بدایونی
نہ مدارات ہماری نہ عدو سے نفرت
نہ مدارات ہماری نہ عدو سے نفرت .نہ وفا ہی تمہیں آئی نہ جفا ہی آئی بیخود بدایونی
آنسو مری آنکھوں میں ہیں نالے مرے لب پر
آنسو مری آنکھوں میں ہیں نالے مرے لب پر .سودا مرے سر میں ہے تمنا مرے دل میں بیخود بدایونی
دیر و حرم کو دیکھ لیا خاک بھی نہیں
دیر و حرم کو دیکھ لیا خاک بھی نہیں .بس اے تلاش یار نہ در در پھرا مجھے بیخود بدایونی
وہ ان کا وصل میں یہ کہہ کے مسکرا دینا
وہ ان کا وصل میں یہ کہہ کے مسکرا دینا .طلوع صبح سے پہلے ہمیں جگا دینا بیخود بدایونی
شکوہ سن کر جو مزاج بت بد خو بدلا
شکوہ سن کر جو مزاج بت بد خو بدلا .ہم نے بھی ساتھ ہی تقریر کا پہلو بدلا بیخود بدایونی
گردش بخت سے بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں
گردش بخت سے بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں .مری دل بستگیاں زلف گرہ گیر کے ساتھ بیخود بدایونی
ان کی حسرت بھی نہیں میں بھی نہیں دل بھی نہیں
ان کی حسرت بھی نہیں میں بھی نہیں دل بھی نہیں .اب تو بیخودؔ ہے یہ عالم مری تنہائی کا بیخود بدایونی
اپنی خوئے وفا سے ڈرتا ہوں
اپنی خوئے وفا سے ڈرتا ہوں .عاشقی بندگی نہ ہو جائے بیخود بدایونی
بیٹھتا ہے ہمیشہ رندوں میں
بیٹھتا ہے ہمیشہ رندوں میں .کہیں زاہد ولی نہ ہو جائے بیخود بدایونی
واعظ و محتسب کا جمگھٹ ہے
واعظ و محتسب کا جمگھٹ ہے .میکدہ اب تو میکدہ نہ رہا بیخود بدایونی