Zeb Ghauri
- 1928-1985
- Kanpur, Uttar pradesh, British India
Introduction
Ghazal
وہ اور محبت سے مجھے دیکھ رہا ہو
وہ اور محبت سے مجھے دیکھ رہا ہو کیا دل کا بھروسا مجھے دھوکا ہی ہوا ہو ہوگا کوئی اس دل سا بھی دیوانہ کہ
گہری رات ہے اور طوفان کا شور بہت
گہری رات ہے اور طوفان کا شور بہت گھر کے در و دیوار بھی ہیں کمزور بہت تیرے سامنے آتے ہوئے گھبراتا ہوں لب پہ
خنجر چمکا رات کا سینہ چاک ہوا
خنجر چمکا رات کا سینہ چاک ہوا جنگل جنگل سناٹا سفاک ہوا زخم لگا کر اس کا بھی کچھ ہاتھ کھلا میں بھی دھوکا کھا
ستم گروں کا طریق جفا نہیں جاتا
ستم گروں کا طریق جفا نہیں جاتا کہ قتل کرنا ہو جس کو کہا نہیں جاتا یہ کم ہے کیا کہ مرے پاس بیٹھا رہتا
میں چھو سکوں تجھے میرا خیال خام ہے کیا
میں چھو سکوں تجھے میرا خیال خام ہے کیا ترا بدن کوئی شمشیر بے نیام ہے کیا مری جگہ کوئی آئینہ رکھ لیا ہوتا نہ
تازہ ہے اس کی مہک رات کی رانی کی طرح
تازہ ہے اس کی مہک رات کی رانی کی طرح کسی بچھڑے ہوئے لمحے کی نشانی کی طرح جتنا دیکھو اسے تھکتی نہیں آنکھیں ورنہ
ہوا میں اڑتا کوئی خنجر جاتا ہے
ہوا میں اڑتا کوئی خنجر جاتا ہے سر اونچا کرتا ہوں تو سر جاتا ہے دھوپ اتنی ہے بند ہوئی جاتی ہے آنکھ اور پلک
جاگ کے میرے ساتھ سمندر راتیں کرتا ہے
جاگ کے میرے ساتھ سمندر راتیں کرتا ہے جب سب لوگ چلے جائیں تو باتیں کرتا ہے شام کو دیر سے پہنچوں تو لگتا ہے
مرنے کا سکھ جینے کی آسانی دے
مرنے کا سکھ جینے کی آسانی دے انداتا کیسا ہے آگ نہ پانی دے اس دھرتی پر ہریالی کی جوت جگا کالے میگھا پانی دے
بھڑکتی آگ ہے شعلوں میں ہاتھ ڈالے کون
بھڑکتی آگ ہے شعلوں میں ہاتھ ڈالے کون بچا ہی کیا ہے مری خاک کو نکالے کون تو دوست ہے تو زباں سے کوئی قرار
رنگ غزل میں دل کا لہو بھی شامل ہو
رنگ غزل میں دل کا لہو بھی شامل ہو خنجر جیسا بھی ہو لیکن قاتل ہو اس تصویر کا آب و رنگ نہیں بدلا جانے
زخم پرانے پھول سبھی باسی ہو جائیں گے
زخم پرانے پھول سبھی باسی ہو جائیں گے درد کے سب قصے یاد ماضی ہو جائیں گے سانسیں لیتی تصویروں کو چپ لگ جائے گی
Sher
بڑے عذاب میں ہوں مجھ کو جان بھی ہے عزیز
بڑے عذاب میں ہوں مجھ کو جان بھی ہے عزیز ستم کو دیکھ کے چپ بھی رہا نہیں جاتا زیب غوری
زخم لگا کر اس کا بھی کچھ ہاتھ کھلا
زخم لگا کر اس کا بھی کچھ ہاتھ کھلا میں بھی دھوکا کھا کر کچھ چالاک ہوا زیب غوری
مری جگہ کوئی آئینہ رکھ لیا ہوتا
مری جگہ کوئی آئینہ رکھ لیا ہوتا نہ جانے تیرے تماشے میں میرا کام ہے کیا زیب غوری
دل کو سنبھالے ہنستا بولتا رہتا ہوں لیکن
دل کو سنبھالے ہنستا بولتا رہتا ہوں لیکن سچ پوچھو تو زیبؔ طبیعت ٹھیک نہیں ہوتی زیب غوری
دل ہے کہ تری یاد سے خالی نہیں رہتا
دل ہے کہ تری یاد سے خالی نہیں رہتا شاید ہی کبھی میں نے تجھے یاد کیا ہو زیب غوری
ادھوری چھوڑ کے تصویر مر گیا وہ زیبؔ
ادھوری چھوڑ کے تصویر مر گیا وہ زیبؔ کوئی بھی رنگ میسر نہ تھا لہو کے سوا زیب غوری
گھسیٹتے ہوئے خود کو پھرو گے زیبؔ کہاں
گھسیٹتے ہوئے خود کو پھرو گے زیبؔ کہاں چلو کہ خاک کو دے آئیں یہ بدن اس کا زیب غوری
زخم ہی تیرا مقدر ہیں دل تجھ کو کون سنبھالے گا
زخم ہی تیرا مقدر ہیں دل تجھ کو کون سنبھالے گا اے میرے بچپن کے ساتھی میرے ساتھ ہی مر جانا زیب غوری
جاگ کے میرے ساتھ سمندر راتیں کرتا ہے
جاگ کے میرے ساتھ سمندر راتیں کرتا ہے جب سب لوگ چلے جائیں تو باتیں کرتا ہے زیب غوری
میرے پاس سے اٹھ کر وہ اس کا جانا
میرے پاس سے اٹھ کر وہ اس کا جانا ساری کیفیت ہے گزرتے موسم سی زیب غوری
میں لاکھ اسے تازہ رکھوں دل کے لہو سے
میں لاکھ اسے تازہ رکھوں دل کے لہو سے لیکن تری تصویر خیالی ہی رہے گی زیب غوری
چھیڑ کر جیسے گزر جاتی ہے دوشیزہ ہوا
چھیڑ کر جیسے گزر جاتی ہے دوشیزہ ہوا دیر سے خاموش ہے گہرا سمندر اور میں زیب غوری