Fani Badayuni
- 1879 - 27 August 1941
- Badaun, North-Western Provinces, British India
Introduction
1917 میں ان کی نظموں کی پہلا مجموعہ بدایون سے نقب پریس نے شائع کیا. ان کے دوسرے کام یہ ہیں.
باقیات-ای-فانی 1926 میں مکتب-ای-آگرہ نے شائع کیا تھا
عرفانیات-ای-فانی 1938 میں انجمن ترقی اردو نے شائع کیا تھا.
فانی کی نادر تحریریں، ہوشی ، تشریحات اور تنقیدی جائزے کے ساتھ 1968 میں شائع ہوئی تھی.
انتخاب-ای-فانی.
کلیات-ای-فانی.
Ghazal
ضبط اپنا شعار تھا نہ رہا
ضبط اپنا شعار تھا نہ رہا دل پہ کچھ اختیار تھا نہ رہا دل مرحوم کو خدا بخشے ایک ہی غم گسار تھا نہ رہا
دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو وہ بھی کیا معلوم دعا تو خیر دعا سے امید
خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا زندگی
ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کو ہے
ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کو ہے صبر رخصت ہو رہا ہے اضطراب آنے کو ہے قبر پر کس شان سے وہ بے نقاب
آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ
آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ بچ گئی آنکھ دل پہ آئی چوٹ درد دل کی انہیں خبر کیا ہو جانتا کون ہے پرائی
اک فسانہ سن گئے اک کہہ گئے
اک فسانہ سن گئے اک کہہ گئے میں جو رویا مسکرا کر رہ گئے یا ترے محتاج ہیں اے خون دل یا انہیں آنکھوں سے
ہر سانس کے ساتھ جا رہا ہوں
ہر سانس کے ساتھ جا رہا ہوں میں تیرے قریب آ رہا ہوں یہ دل میں کراہنے لگا کون رو رو کے کسے رلا رہا
مال سوز غم ہائے نہانی دیکھتے جاؤ
مال سوز غم ہائے نہانی دیکھتے جاؤ بھڑک اٹھی ہے شمع زندگانی دیکھتے جاؤ چلے بھی آؤ وہ ہے قبر فانیؔ دیکھتے جاؤ تم اپنے
یاں ہوش سے بے زار ہوا بھی نہیں جاتا
یاں ہوش سے بے زار ہوا بھی نہیں جاتا اس بزم میں ہشیار ہوا بھی نہیں جاتا کہتے ہو کہ ہم وعدۂ پرسش نہیں کرتے
شوق سے ناکامی کی بدولت کوچہ دل ہی چھوٹ گیا
شوق سے ناکامی کی بدولت کوچہ دل ہی چھوٹ گیا ساری امیدیں ٹوٹ گئیں دل بیٹھ گیا جی چھوٹ گیا فصل گل آئی یا
آہ اب تک تو بے اثر نہ ہوئی
آہ اب تک تو بے اثر نہ ہوئی کچھ تمہیں کو مری خبر نہ ہوئی شام سے فکر صبح کیا شب ہجر مر رہیں گے
Nazm
یوم یادگار سرسید دردکن
جو شمع علم مغرب سید نے کی تھی روشن بکھری ہوئی ہیں جس کی کرنیں ہر انجمن میں اس شمع علم و فن کی کچھ
Sher
ہر مصیبت کا دیا ایک تبسم سے جواب
ہر مصیبت کا دیا ایک تبسم سے جواب اس طرح گردش دوراں کو رلایا میں نے فانی بدایونی
موت کا انتظار باقی ہے
موت کا انتظار باقی ہے آپ کا انتظار تھا نہ رہا فانی بدایونی
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو وہ بھی کیا معلوم فانی بدایونی
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا فانی بدایونی
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا بات پہنچی تری جوانی تک فانی بدایونی
آتے ہیں عیادت کو تو کرتے ہیں نصیحت
آتے ہیں عیادت کو تو کرتے ہیں نصیحت احباب سے غم خوار ہوا بھی نہیں جاتا فانی بدایونی
دل سراپا درد تھا وہ ابتدائے عشق تھی
دل سراپا درد تھا وہ ابتدائے عشق تھی انتہا یہ ہے کہ فانیؔ درد اب دل ہو گیا فانی بدایونی
ناامیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کر
ناامیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کر آس کہتی ہے ٹھہر خط کا جواب آنے کو ہے فانی بدایونی
سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے
سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ فانی بدایونی
کچھ کٹی ہمت سوال میں عمر
کچھ کٹی ہمت سوال میں عمر کچھ امید جواب میں گزری فانی بدایونی
ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانی
ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانیؔ زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا فانی بدایونی
جوانی کو بچا سکتے تو ہیں ہر داغ سے واعظ
جوانی کو بچا سکتے تو ہیں ہر داغ سے واعظ مگر ایسی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے فانی بدایونی
Rubai
اب یہ بھی نہیں کہ نام تو لیتے ہیں
اب یہ بھی نہیں کہ نام تو لیتے ہیں دامن فقط اشکوں سے بھگو لیتے ہیں اب ہم ترا نام لے کے روتے بھی نہیں
کتنوں کو جگر کا زخم سیتے دیکھا
کتنوں کو جگر کا زخم سیتے دیکھا دیکھا جسے خون دل ہی پیتے دیکھا اب تک روتے تھے مرنے والوں کو اور اب ہم رو
وہ حور کو چاہا کہ پری کو چاہا
وہ حور کو چاہا کہ پری کو چاہا چاہا اسے ہم نے جس کسی کو چاہا سو رنگ سے تھی دل میں تمنا اس کی