Rasa Chughtai
- 1928-5 January 2018
- Sawai Madhopur, Rajasthan, British India
Introduction
وہ مندرجہ ذیل کاموں کے مصنف ہیں.
زنجیر-ای-ہمسائیگی
ریختہ
تیرے آنے کا انتظار رہا.
Ghazal
ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں
ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو میں ان آنکھوں سے
تیرے آنے کا انتظار رہا
تیرے آنے کا انتظار رہا عمر بھر موسم بہار رہا پا بہ زنجیر زلف یار رہی دل اسیر خیال یار رہا ساتھ اپنے غموں کی
خواب اس کے ہیں جو چرا لے جائے
خواب اس کے ہیں جو چرا لے جائے نیند اس کی ہے جو اڑا لے جائے زلف اس کی ہے جو اسے چھو لے بات
کچھ نہ کچھ سوچتے رہا کیجے
کچھ نہ کچھ سوچتے رہا کیجے آسماں دیکھتے رہا کیجے چار دیواریٔ عناصر میں کودتے پھاندتے رہا کیجے اس تحیر کے کارخانے میں انگلیاں کاٹتے
کہاں جاتے ہیں آگے شہر جاں سے
کہاں جاتے ہیں آگے شہر جاں سے یہ بل کھاتے ہوئے رستے یہاں سے وہاں اب خواب گاہیں بن گئی ہیں اٹھے تھے آب دیدہ
جب تک دور جام چلے گا
جب تک دور جام چلے گا ساقی تیرا نام چلے گا مندر میں زنار چلے گی کعبے میں احرام چلے گا جوگی کا سنجوگ نہیں
ہاتھ میں خنجر آ سکتا ہے
ہاتھ میں خنجر آ سکتا ہے یا پھر ساغر آ سکتا ہے آنکھیں زخمی ہو سکتی ہیں ذرہ اڑ کر آ سکتا ہے چھت کے
تیر جیسے کمان کے آگے
تیر جیسے کمان کے آگے موت کڑیل جوان کے آگے بادشاہ اور فقیر دونوں تھے شہر میں اک دکان کے آگے چلتے چلتے زمین رک
ممکن ہے وہ دن آئے کہ دنیا مجھے سمجھے
ممکن ہے وہ دن آئے کہ دنیا مجھے سمجھے لازم نہیں ہر شخص ہی اچھا مجھے سمجھے ہے کوئی یہاں شہر میں ایسا کہ جسے
سر اٹھایا تو سر رہے گا کیا
سر اٹھایا تو سر رہے گا کیا خوف یہ عمر بھر رہے گا کیا اس نے زنجیر کر کے رکھا ہے ہم سے وہ بے
مٹی جب تک نم رہتی ہے
مٹی جب تک نم رہتی ہے خوشبو تازہ دم رہتی ہے اپنی رو میں مست و غزل خواں موج ہوائے غم رہتی ہے ان جھیل
اس سے پہلے نظر نہیں آیا
اس سے پہلے نظر نہیں آیا اس طرح چاند کا یہ ہالا مجھے آدمی کس کمال کا ہوگا جس نے تصویر سے نکالا مجھے میں
Sher
تجھ سے ملنے کو بے قرار تھا دل
تجھ سے ملنے کو بے قرار تھا دل تجھ سے مل کر بھی بے قرار رہا رسا چغتائی
کون دل کی زباں سمجھتا ہے
کون دل کی زباں سمجھتا ہے دل مگر یہ کہاں سمجھتا ہے رسا چغتائی
جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے
جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو میں ان آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں رسا چغتائی
ممکن ہے وہ دن آئے کہ دنیا مجھے سمجھے
ممکن ہے وہ دن آئے کہ دنیا مجھے سمجھے لازم نہیں ہر شخص ہی اچھا مجھے سمجھے رسا چغتائی
ہے کوئی یہاں شہر میں ایسا کہ جسے میں
ہے کوئی یہاں شہر میں ایسا کہ جسے میں اپنا نہ کہوں اور وہ اپنا مجھے سمجھے رسا چغتائی
ان جھیل سی گہری آنکھوں میں
ان جھیل سی گہری آنکھوں میں اک لہر سی ہر دم رہتی ہے رسا چغتائی
اس گھر کی ساری دیواریں شیشے کی ہیں
اس گھر کی ساری دیواریں شیشے کی ہیں لیکن اس گھر کا مالک خود اک پتھر ہے رسا چغتائی
جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو
جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو میں ان آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں رسا چغتائی
عشق میں بھی سیاستیں نکلیں
عشق میں بھی سیاستیں نکلیں قربتوں میں بھی فاصلہ نکلا رسا چغتائی
ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں
ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں رسا چغتائی
اٹھا لایا ہوں سارے خواب اپنے
اٹھا لایا ہوں سارے خواب اپنے تری یادوں کے بوسیدہ مکاں سے رسا چغتائی
چاند ہوتا نہیں ہر اک چہرہ
چاند ہوتا نہیں ہر اک چہرہ پھول ہوتے نہیں سخن سارے رسا چغتائی