![Mohammad Ali Jauhar 1 Muhammad Ali Jauhar](https://iztirab.com/wp-content/uploads/2023/07/Muhammad-Ali-Jauhar-927x1024.jpg)
Mohammad Ali Jauhar
- 10 December 1878 - 4 January 1931
- Rampur, Rampur State, British India
Introduction
آخر کار، مسلسل جیل کی سزا، ان کی ذیابیطس کی بیماری، اور جیل میں رہتے ہوئے مناسب خوراک کی کمی نے انہیں بیمار کردیا. صحت گرنے کے باوجود، انہوں نے لندن میں گول میز کانفرنس میں شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صرف مسلم لیگ ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق کی تحفظ کرنے والی جماعت ہے. مبینہ طور پر برطانوی حکومت کو ان کا پیغام یہ تھا کہ جب تک مسلمانوں کا آزاد ملک نہ ہو تب تک وہ ہندوستان واپس نہیں جائیں گے. “میں ایک غیر ملک جو کے آزاد ملک ہو اس میں مرنے کا انتخاب کروں گا، اور اگر آپ ہمیں خودمحتار ملک نہیں دیتے ہیں تو پھر آپ کو مجھے یہاں دفن کرنے کے لئے جگہ دینی پڑے گی”.
4 جنوری 1931 کو، وہ فالج کی وجہ سے فوت ہوگئے اور انہیں یروشلم میں دفن کیا گیا. ان کی قبر پر عنوان اعلان کرتا ہے، ‘یہاں السید محمد علی الہندی ہے’. پاکستان پوسٹل سروسز نے 1978 میں ان کی سالگرہ کے موقع پر “آزادی میں ان کی جدوجہد” کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک یادگار پوسٹل اسٹیمپ دیا. ہندوستان میں جامع ملی اسلامیہ، مولانا محمد علی جوہر اکیڈمی آف انٹرنیشنل اسٹڈیز، رام پور میں محمد علی جوہر یونیورسٹی، بنگلہ دیش میں مولانا محمد علی جوہر کالج, اور پاکستان میں جوہر آباد، جوہر ٹاؤن ، گلستان ای جوہر سمیت کئی مقامات کا نام ان کے نام پر رکھا گیا ہے تاکہ نوجوان نسل اس عظیم ہیرو کو یاد رکھے جسکی زندگی نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہے.
Ghazal
تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لیے ہے
تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لیے ہے پر غیب سے سامان بقا میرے لیے ہے پیغام ملا تھا جو حسین ابن علی کو
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو تیری آرزو
خاک جینا ہے اگر موت سے ڈرنا ہے یہی
خاک جینا ہے اگر موت سے ڈرنا ہے یہی ہوس زیست ہو اس درجہ تو مرنا ہے یہی قلزم عشق میں ہیں نفع و سلامت
گلہ اے دل ابھی سے کرتا ہے
گلہ اے دل ابھی سے کرتا ہے عشق کا دم اسی پہ بھرتا ہے جان دیتا ہے عیش فانی پر بس اسی زندگی پہ مرتا
عرش تک جو بے خطا جاتا ہے یہ وہ تیر ہے
عرش تک جو بے خطا جاتا ہے یہ وہ تیر ہے غیر سمجھا ہے کہ میری آہ بے تاثیر ہے خوگر قید وفا پر کھل
ڈر نہیں مجھ کو گناہوں کی گراں باری کا
ڈر نہیں مجھ کو گناہوں کی گراں باری کا تیری رحمت ہے سبب میری سبک ساری کا دار نے اک سگ دنیا کو یہ بخشا
قید اور قید بھی تنہائی کی
قید اور قید بھی تنہائی کی شرم رہ جائے شکیبائی کی سوجھتا کیا ہمیں ان آنکھوں سے شرط تھی قلب کی بینائی کی در بت
خوگر جور پہ تھوڑی سی جفا اور سہی
خوگر جور پہ تھوڑی سی جفا اور سہی اس قدر ظلم پہ موقوف ہے کیا اور سہی خوف غماز عدالت کا خطر دار کا ڈر
کس سے آزردہ مرے قاتل کا خنجر ہو گیا
کس سے آزردہ مرے قاتل کا خنجر ہو گیا کیا ہوا جو آج یوں جامے سے باہر ہو گیا میرا شہرہ آج اک عالم میں
جنوں ہی سے مگر بالکل دل دیوانہ خالی ہے
جنوں ہی سے مگر بالکل دل دیوانہ خالی ہے نہ مانوں گا اثر سے نعرۂ مستانہ خالی ہے مروت سے تری ہم بیکسوں کی شرم
لاکھ حربے سہی ہر وضع کے شیطان کے پاس
لاکھ حربے سہی ہر وضع کے شیطان کے پاس ڈھال ایمان کی موجود ہو انسان کے پاس ملک سمجھو اسے پامال بجا ہے اک دین
سوز دروں سے جل بجھو لیکن دھواں نہ ہو
سوز دروں سے جل بجھو لیکن دھواں نہ ہو ہے درد دل کی شرط کہ لب پر فغاں نہ ہو پھر ہو رہا ہے شور
Naat
تنہائی کے سب دن ہیں تنہائی کی سب راتیں
تنہائی کے سب دن ہیں تنہائی کی سب راتیں اب ہونے لگیں ان سے خلوت میں ملاقاتیں ہر لحظہ تشفی ہے ہر آن تسلی ہے
Sher
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد مولانا محمد علی جوہر
نہ نماز آتی ہے مجھ کو نہ وضو آتا ہے
نہ نماز آتی ہے مجھ کو نہ وضو آتا ہے سجدہ کر لیتا ہوں جب سامنے تو آتا ہے مولانا محمد علی جوہر
وقار خون شہیدان کربلا کی قسم
وقار خون شہیدان کربلا کی قسم یزید مورچہ جیتا ہے جنگ ہارا ہے مولانا محمد علی جوہر
قید اور قید بھی تنہائی کی
قید اور قید بھی تنہائی کی شرم رہ جائے شکیبائی کی مولانا محمد علی جوہر
ہر سینہ آہ ہے ترے پیکاں کا منتظر
ہر سینہ آہ ہے ترے پیکاں کا منتظر ہو انتخاب اے نگہ یار دیکھ کر مولانا محمد علی جوہر
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد مولانا محمد علی جوہر
ساری دنیا یہ سمجھتی ہے کہ سودائی ہے
ساری دنیا یہ سمجھتی ہے کہ سودائی ہے اب مرا ہوش میں آنا تری رسوائی ہے مولانا محمد علی جوہر
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے یہ بندہ زمانے سے خفا میرے لیے ہے مولانا محمد علی جوہر
وہی دن ہے ہماری عید کا دن
وہی دن ہے ہماری عید کا دن جو تری یاد میں گزرتا ہے مولانا محمد علی جوہر
شکوہ صیاد کا بے جا ہے قفس میں بلبل
شکوہ صیاد کا بے جا ہے قفس میں بلبل یاں تجھے آپ ترا طرز فغاں لایا ہے مولانا محمد علی جوہر
تجھ سے کیا صبح تلک ساتھ نبھے گا اے عمر
تجھ سے کیا صبح تلک ساتھ نبھے گا اے عمر شب فرقت کی جو گھڑیوں کا گزرنا ہے یہی مولانا محمد علی جوہر