Iztirab

Iztirab

Muhammad Ali Jauhar

Mohammad Ali Jauhar

Introduction

محمد علی جوہر 10 دسمبر 1878 کو پیدا ہوئے تھے اور 4 جنوری 1931 کو ان کا انتقال ہوگیا تھا. وہ انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ کے ایک سرگرم رکن، ایک صحافی، ایک شاعر، “تحریک خلافت” کے سربراہ اور “جامع ملی اسلامیہ” کے بانیوں میں سے ایک تھے. وہ علی گڑھ تحریک کے ممبر بھی تھے. وہ 1923 میں انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کے صدر منتخب ہوئے تھے اور صرف چند مہینوں تک وہ اس عہدہ پر فائز رہے. وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے تخلیق کاروں میں سے ایک تھے. محمد علی جوہر 1878 میں شمالی مغربی صوبے کے علاقے رام پور میں پیدا ہوئے تھے. وہ یوسف زئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوئے تھے. عبدل علی خان ان کے والد تھے. عبدل علی خان کا انتقال اس وقت ہوا جب محمد علی کی عمر پانچ سال تھی. ان کے بھائی ذولفقار اور شوکت تھے. وہ دونوں خلافت موومنٹ کے رہنما تھے. ان کی والدہ عبدی بیگم “بی اماں” کے نام سے مشہور تھیں. انہوں نے اپنے بیٹوں کو برطانوی حکمرانی سے آزادی کے لئے جدوجہد کرنے کی ترغیب دی. اپنے والد کے انتقال کے باوجود، جوہر 1898 میں جدید تاریخ کی کھوج کے لئے آکسفورڈ کے لنکن کالج، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور الہ آباد یونیورسٹی گئے. ہندوستان واپس آنے کے بعد، انہوں نے رامپور ریاست کے ایجوکیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کیا. بعد میں وہ سول سروس میں شامل ہوگئے. وہ ایک مصنف اور سیاسی رہنما بن گئے. انہوں نے لندن، ٹائمز، آبزرور ، اور مانچسٹر گارڈین جیسے ہندوستانی اور برطانوی اخبارات کے لئے مضامین مرتب کرنا شروع کیے. 1911 میں کلکتہ سے انہوں نے انگریزی ہفتہ وار “دی کامریڈ” شروع کیا. وہ 1912 میں دہلی گئے تھے اور وہاں انہوں نے 1913 میں “ہمدرد” نامی اردو زبان میں ایک روزنامہ شروع کیا تھا. 1906 میں انہوں نے ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاسوں میں شرکت کی اور 1918 میں وہ اس کے صدر بنے. وہ 1928 تک مسلم لیگ میں سرگرم رہے. انہوں نے 1919 میں انگلینڈ جانے والی مسلم کمیٹی کی نمائندگی کی تاکہ برطانوی حکومت کو ترکی کے قوم پرست مصطفی کمال پر اثر انداز ہونے کی ترغیب دی جائے تاکہ وہ ترکی کے سلطان کو برخاست نہ کریں, جو اس وقت اسلام کا خلیفہ اور تمام اسلامی ریاستوں کا قبول شدہ رہنما تھا. برطانوی حکومت کے ذریعہ ان کے مطالبات کو مسترد کرنے کے بعد تحریک خلافت تشکیل دی گئی جس نے پورے ہندوستان میں مسلمانوں کو برطانوی حکومت کے خلاف بائیکاٹ اور بغاوت کا اہتمام کیا. انہوں نے خلافات کانفرنس کے اجلاس میں تقریر کی جس کے لئے انہیں دو سال تک برطانوی حکومت نے قید رکھا. اس قید کے علاوہ، حکومت مخالف تحریکوں کی وجہ سے جیل میں انکی سزا مسلسل زیادہ ہوتی گئی لیکن، وہ مسلم لیگ کے لئے جدوجہد کرتے رہے.
آخر کار، مسلسل جیل کی سزا، ان کی ذیابیطس کی بیماری، اور جیل میں رہتے ہوئے مناسب خوراک کی کمی نے انہیں بیمار کردیا. صحت گرنے کے باوجود، انہوں نے لندن میں گول میز کانفرنس میں شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صرف مسلم لیگ ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق کی تحفظ کرنے والی جماعت ہے. مبینہ طور پر برطانوی حکومت کو ان کا پیغام یہ تھا کہ جب تک مسلمانوں کا آزاد ملک نہ ہو تب تک وہ ہندوستان واپس نہیں جائیں گے. “میں ایک غیر ملک جو کے آزاد ملک ہو اس میں مرنے کا انتخاب کروں گا، اور اگر آپ ہمیں خودمحتار ملک نہیں دیتے ہیں تو پھر آپ کو مجھے یہاں دفن کرنے کے لئے جگہ دینی پڑے گی”.
4 جنوری 1931 کو، وہ فالج کی وجہ سے فوت ہوگئے اور انہیں یروشلم میں دفن کیا گیا. ان کی قبر پر عنوان اعلان کرتا ہے، ‘یہاں السید محمد علی الہندی ہے’. پاکستان پوسٹل سروسز نے 1978 میں ان کی سالگرہ کے موقع پر “آزادی میں ان کی جدوجہد” کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک یادگار پوسٹل اسٹیمپ دیا. ہندوستان میں جامع ملی اسلامیہ، مولانا محمد علی جوہر اکیڈمی آف انٹرنیشنل اسٹڈیز، رام پور میں محمد علی جوہر یونیورسٹی، بنگلہ دیش میں مولانا محمد علی جوہر کالج, اور پاکستان میں جوہر آباد، جوہر ٹاؤن ، گلستان ای جوہر سمیت کئی مقامات کا نام ان کے نام پر رکھا گیا ہے تاکہ نوجوان نسل اس عظیم ہیرو کو یاد رکھے جسکی زندگی نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہے.

Ghazal

Naat

Sher

Poetry Image