Kanwal Ziai
- 15 March 1927-27 October 2011
- Sialkot, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Kanwal Ziai was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
روح اجداد کو جھنجھوڑ دیا بچوں نے
روح اجداد کو جھنجھوڑ دیا بچوں نے سارے حالات کا رخ موڑ دیا بچوں نے آخری ایک کھلونا تھا روایت کا وقار باتوں باتوں میں
کہاں تک بڑھ گئی ہے بات لکھنا
کہاں تک بڑھ گئی ہے بات لکھنا مرے گاؤں کے سب حالات لکھنا جواں بیٹوں کی لاشوں کے علاوہ ملی ہے کون سی سوغات لکھنا
بہت دنوں سے کھلا در تلاش کرتا ہوں
بہت دنوں سے کھلا در تلاش کرتا ہوں میں اپنے گھر میں کھڑا گھر تلاش کرتا ہوں پلک پہ قطرۂ شبنم اٹھائے صدیوں سے ترے
زمانے کو لہو پینے کی لت ہے
زمانے کو لہو پینے کی لت ہے مگر پھر بھی یہاں سب خیریت ہے ہماری شخصیت کیا شخصیت ہے ہر اک تیور دکھاوے کی پرت
غم کی ہر ایک بات کو اب غم پہ چھوڑ دے
غم کی ہر ایک بات کو اب غم پہ چھوڑ دے اس تشنگی کو قطرۂ شبنم پہ چھوڑ دے جو تو نے کر دیا ہے
پرکھ فضا کی ہوا کا جسے حساب بھی ہے
پرکھ فضا کی ہوا کا جسے حساب بھی ہے وہ شخص صاحب فن بھی ہے کامیاب بھی ہے جو روپ آئی کو اچھا لگے وہ
روز فلک سے نم برسیں گے
روز فلک سے نم برسیں گے پیار کے بادل کم برسیں گے موت نے آنچل جب لہرایا آنگن میں ماتم برسیں گے قطرہ قطرہ خون
حرفوں کا دل کانپ رہا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے
حرفوں کا دل کانپ رہا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے کس قاتل کا نام لکھا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے خون سے جلتا
Sher
یہ قطرہ خون کا دریا بنے گا
یہ قطرہ خون کا دریا بنے گا ابھی انسان زیر تربیت ہے کنول ضیائی
لہو دھرتی میں کتنا بو چکے ہو
لہو دھرتی میں کتنا بو چکے ہو نئی فصلوں کی بھی اوقات لکھنا کنول ضیائی
جو روپ آئی کو اچھا لگے وہ اپنا لیں
جو روپ آئی کو اچھا لگے وہ اپنا لیں ہماری شخصیت کانٹا بھی ہے گلاب بھی ہے کنول ضیائی
بدن بدن سے خلوص و وفا کی خوشبوئیں
بدن بدن سے خلوص و وفا کی خوشبوئیں میں سونگھ کر نہیں چھوکر تلاش کرتا ہوں کنول ضیائی
قطرہ قطرہ خون کا بن کر
قطرہ قطرہ خون کا بن کر اس دھرتی پر ہم برسیں گے کنول ضیائی
گھر کا ہر شخص نظر آتا ہے بت پتھر کا
گھر کا ہر شخص نظر آتا ہے بت پتھر کا جب سے رشتوں کو نیا موڑ دیا بچوں نے کنول ضیائی
کروٹ لے کر ایک قیامت جاگنے والی ہے اب شاید
کروٹ لے کر ایک قیامت جاگنے والی ہے اب شاید کہنے کو اک سناٹا ہے لفظوں کی دیوار کے پیچھے کنول ضیائی
خنجر تھا کس کے ہاتھ میں بس اتنا یاد کر
خنجر تھا کس کے ہاتھ میں بس اتنا یاد کر زخموں کا درد وقت کے مرہم پہ چھوڑ دے کنول ضیائی
چند سانسوں کے لئے بکتی نہیں خودداری
چند سانسوں کے لئے بکتی نہیں خودداری زندگی ہاتھ پہ رکھی ہے اٹھا کر لے جا کنول ضیائی
ہمارا دور اندھیروں کا دور ہے لیکن
ہمارا دور اندھیروں کا دور ہے لیکن ہمارے دور کی مٹھی میں آفتاب بھی ہے کنول ضیائی
جس میں چھپا ہوا ہو وجود گناہ و کفر
جس میں چھپا ہوا ہو وجود گناہ و کفر اس معتبر لباس پہ تیزاب ڈال دو کنول ضیائی
ہمارا خون کا رشتہ ہے سرحدوں کا نہیں
ہمارا خون کا رشتہ ہے سرحدوں کا نہیں ہمارے خون میں گنگا بھی چناب بھی ہے کنول ضیائی