Jan Nisar Akhtar
- 18 February 1914-19 August 1976
- Gwalior, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Jan Nisar Akhtar was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو جب شاخ کوئی ہاتھ لگاتے ہی
ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح
ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح خودبخود نیند سی آنکھوں میں گھلی جاتی
اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں
اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے ہیں اب یہ بھی نہیں ٹھیک کہ ہر درد
لوگ کہتے ہیں کہ تو اب بھی خفا ہے مجھ سے
لوگ کہتے ہیں کہ تو اب بھی خفا ہے مجھ سے تیری آنکھوں نے تو کچھ اور کہا ہے مجھ سے ہائے اس وقت کو
جب لگیں زخم تو قاتل کو دعا دی جائے
جب لگیں زخم تو قاتل کو دعا دی جائے ہے یہی رسم تو یہ رسم اٹھا دی جائے دل کا وہ حال ہوا ہے غم
سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی
سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی تم آئے تو اس رات کی اوقات بنے گی ان سے یہی کہہ آئیں کہ
ہم نے کاٹی ہیں تری یاد میں راتیں اکثر
ہم نے کاٹی ہیں تری یاد میں راتیں اکثر دل سے گزری ہیں ستاروں کی براتیں اکثر اور تو کون ہے جو مجھ کو تسلی
اے درد عشق تجھ سے مکرنے لگا ہوں میں
اے درد عشق تجھ سے مکرنے لگا ہوں میں مجھ کو سنبھال حد سے گزرنے لگا ہوں میں پہلے حقیقتوں ہی سے مطلب تھا اور
زلفیں سینہ ناف کمر
زلفیں سینہ ناف کمر ایک ندی میں کتنے بھنور صدیوں صدیوں میرا سفر منزل منزل راہ گزر کتنا مشکل کتنا کٹھن جینے سے جینے کا
ہر ایک روح میں اک غم چھپا لگے ہے مجھے
ہر ایک روح میں اک غم چھپا لگے ہے مجھے یہ زندگی تو کوئی بد دعا لگے ہے مجھے پسند خاطر اہل وفا ہے مدت
اچھا ہے ان سے کوئی تقاضا کیا نہ جائے
اچھا ہے ان سے کوئی تقاضا کیا نہ جائے اپنی نظر میں آپ کو رسوا کیا نہ جائے ہم ہیں ترا خیال ہے تیرا جمال
تو اس قدر مجھے اپنے قریب لگتا ہے
تو اس قدر مجھے اپنے قریب لگتا ہے تجھے الگ سے جو سوچوں عجیب لگتا ہے جسے نہ حسن سے مطلب نہ عشق سے سروکار
Nazm
خاموش آواز
کتنے دن میں آئے ہو ساتھی میرے سوتے بھاگ جگانے مجھ سے الگ اس ایک برس میں کیا کیا بیتی تم پہ نہ جانے دیکھو
آخری ملاقات
مت روکو انہیں پاس آنے دو یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں دو پاؤں
زندگی
تمتمائے ہوئے عارض پہ یہ اشکوں کی قطار مجھ سے اس درجہ خفا آپ سے اتنی بیزار میں نے کب تیری محبت سے کیا ہے
حوا کی بیٹی
شدت افلاس سے جب زندگی تھی تجھ پہ تنگ اشتہا کے ساتھ تھی جب غیرت و عصمت کی جنگ گھات میں تیری رہا یہ خود
روشنیاں
آج بھی کتنی ان گنت شمعیں میرے سینے میں جھلملاتی ہیں کتنے عارض کی جھلکیاں اب تک دل میں سیمیں ورق لٹاتی ہیں کتنے ہیرا
موہوم افسانے
وہ افسانے کیا ہے چاند تاروں کا سفر جن میں یہ دنیا ایک دھندلی گیند آتی ہے نظر جن میں وہ جن میں ملک برق
بگولا
جون کا تپتا مہینہ تمتماتا آفتاب ڈھل چکا ہے دن کے سانچے میں جہنم کا شباب دوپہر اک آتش سیال برساتی ہوئی سینۂ کہسار میں
اتحاد
یہ دیش کہ ہندو اور مسلم تہذیبوں کا شیرازہ ہے صدیوں کی پرانی بات ہے یہ پر آج بھی کتنی تازہ ہے تاریخ ہے اس
مزدور عورتیں
گلنار دیکھتی ہے یہ مزدور عورتیں چہروں پہ خاک دھول کے پونچھے ہوئے نشاں تو اور رنگ غازہ و گلگونہ و شہاب سوچا بھی کس
حسیں آگ
تیری پیشانیٔ رنگیں میں جھلکتی ہے جو آگ تیرے رخسار کے پھولوں میں دمکتی ہے جو آگ تیرے سینے میں جوانی کی دہکتی ہے جو
لوح مزار
ڈھل چکا دن اور تیری قبر پر دیر سے بیٹھا ہوا ہوں سرنگوں روح پر طاری ہے اک مبہم سکوت اب وہ سوز غم نہ
عالم کتن
اف یہ شبنم سے چھلکتے ہوئے پھولوں کے ایاغ اس چمن میں ہیں ابھی دیدۂ پر نم کتنے کتنے غنچے ہیں جگر چاک گلستاں میں
Sher
آخری لمحہ
تم مری زندگی میں آئی ہو میرا اک پاؤں جب رکاب میں ہے دل کی دھڑکن ہے ڈوبنے کے قریب سانس ہر لحظہ پیچ و
خاک دل
لکھنؤ میرے وطن میرے چمن زار وطن تیرے گہوارۂ آغوش میں اے جان بہار اپنی دنیائے حسیں دفن کیے جاتا ہوں تو نے جس دل
تجزیہ
میں تجھے چاہتا نہیں لیکن پھر بھی جب پاس تو نہیں ہوتی خود کو کتنا اداس پاتا ہوں گم سے اپنے حواس پاتا ہوں جانے
گرلز کالج کی لاری
فضاؤں میں ہے صبح کا رنگ طاری گئی ہے ابھی گرلز کالج کی لاری گئی ہے ابھی گونجتی گنگناتی زمانے کی رفتار کا راگ گاتی
یہ علم کا سودا یہ رسالے یہ کتابیں
یہ علم کا سودا یہ رسالے یہ کتابیں اک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیے ہیں جاں نثاراختر
سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی
سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی تم آئے تو اس رات کی اوقات بنے گی جاں نثاراختر
اب یہ بھی نہیں ٹھیک کہ ہر درد مٹا دیں
اب یہ بھی نہیں ٹھیک کہ ہر درد مٹا دیں کچھ درد کلیجے سے لگانے کے لیے ہیں جاں نثاراختر
اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں
اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے ہیں جاں نثاراختر
زلفیں سینہ ناف کمر
زلفیں سینہ ناف کمر ایک ندی میں کتنے بھنور جاں نثاراختر
دلی کہاں گئیں ترے کوچوں کی رونقیں
دلی کہاں گئیں ترے کوچوں کی رونقیں گلیوں سے سر جھکا کے گزرنے لگا ہوں میں جاں نثاراختر
آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو جاں نثاراختر
دیکھوں ترے ہاتھوں کو تو لگتا ہے ترے ہاتھ
دیکھوں ترے ہاتھوں کو تو لگتا ہے ترے ہاتھ مندر میں فقط دیپ جلانے کے لیے ہیں جاں نثاراختر
Qita
کتنی معصوم ہیں تری آنکھیں
کتنی معصوم ہیں تری آنکھیں بیٹھ جا میرے روبرو مرے پاس ایک لمحے کو بھول جانے دے اپنے اک اک گناہ کا احساس جاں نثاراختر
رات جب بھیگ کے لہراتی ہے
رات جب بھیگ کے لہراتی ہے چاندنی اوس میں بس جاتی ہے اپنی ہر سانس سے مجھ کو اخترؔ ان کے ہونٹوں کی مہک آتی
دوست! تجھ سے اگر خفا ہوں تو کیا
دوست! تجھ سے اگر خفا ہوں تو کیا آپ سے بھی تو خود خفا ہوں میں آج تک یہ نہ کھل سکا مجھ پر بے
میں نے مانا تری محبت میں
میں نے مانا تری محبت میں دل کے دل ہی میں رہ گئے ارمان پھر بھی اس بات کا یقیں ہے مجھے نامکمل نہیں مرا
کس کو معلوم تھا کہ عہد وفا
کس کو معلوم تھا کہ عہد وفا اس قدر جلد ٹوٹ جائے گا کیا خبر تھی کہ ہاتھ لگتے ہی پھول کا رنگ چھوٹ جائے
ابر میں چھپ گیا ہے آدھا چاند
ابر میں چھپ گیا ہے آدھا چاند چاندنی چھن رہی ہے شاخوں سے جیسے کھڑکی کا ایک پٹ کھولے جھانکتا ہو کوئی سلاخوں سے جاں
اپنے آئینۂ تمنا میں
اپنے آئینۂ تمنا میں اب بھی مجھ کو سنوارتی ہے تو میں بہت دور جا چکا لیکن مجھ کو اب تک پکارتی ہے تو جاں
دوست کیا حسن کے مقابل میں
دوست! کیا حسن کے مقابل میں عشق کی جیت سن سکے گی تو دل نازک سے پہلے پوچھ تو لے کیا مرے گیت سن سکے
آ کہ ان بد گمانیوں کی قسم
آ کہ ان بد گمانیوں کی قسم بھول جائیں غلط سلط باتیں آ کسی دن کے انتظار میں دوست کاٹ دیں جاگ جاگ کر راتیں
اک نئی نظم کہہ رہا ہوں میں
اک نئی نظم کہہ رہا ہوں میں اپنے جذبات کی حسیں تفسیر کس محبت سے تک رہی ہے مجھے دور رکھی ہوئی تری تصویر جاں
آج مدت کے بعد ہونٹوں پر
آج مدت کے بعد ہونٹوں پر ایک مبہم سا گیت آیا ہے اس کو نغمہ تو کہہ نہیں سکتا یہ تو نغمے کا ایک سایا
انگڑائی یہ کس نے لی ادا سے
انگڑائی یہ کس نے لی ادا سے کیسی یہ کرن فضا میں پھوٹی کیوں رنگ برس پڑا چمن میں کیا قوس قزح لچک کے ٹوٹی