Saleem Kausar
- 24 October 1947
- Panipat, East Punjab, India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے میں کسی کے دست
کچھ بھی تھا سچ کے طرف دار ہوا کرتے تھے
کچھ بھی تھا سچ کے طرف دار ہوا کرتے تھے تم کبھی صاحب کردار ہوا کرتے تھے سنتے ہیں ایسا زمانہ بھی یہاں گزرا ہے
قربتیں ہوتے ہوئے بھی فاصلوں میں قید ہیں
قربتیں ہوتے ہوئے بھی فاصلوں میں قید ہیں کتنی آزادی سے ہم اپنی حدوں میں قید ہیں کون سی آنکھوں میں میرے خواب روشن ہیں
تجھ سے بڑھ کر کوئی پیارا بھی نہیں ہو سکتا
تجھ سے بڑھ کر کوئی پیارا بھی نہیں ہو سکتا پر ترا ساتھ گوارا بھی نہیں ہو سکتا راستہ بھی غلط ہو سکتا ہے منزل
کہیں تم اپنی قسمت کا لکھا تبدیل کر لیتے
کہیں تم اپنی قسمت کا لکھا تبدیل کر لیتے تو شاید ہم بھی اپنا راستہ تبدیل کر لیتے اگر ہم واقعی کم حوصلہ ہوتے محبت
دل تجھے ناز ہے جس شخص کی دل داری پر
دل تجھے ناز ہے جس شخص کی دل داری پر دیکھ اب وہ بھی اتر آیا اداکاری پر میں نے دشمن کو جگایا تو بہت
لو کو چھونے کی ہوس میں ایک چہرہ جل گیا
لو کو چھونے کی ہوس میں ایک چہرہ جل گیا شمع کے اتنے قریب آیا کہ سایا جل گیا پیاس کی شدت تھی سیرابی میں
تو سورج ہے تیری طرف دیکھا نہیں جا سکتا
تو سورج ہے تیری طرف دیکھا نہیں جا سکتا لیکن دیکھنے والوں کو روکا نہیں جا سکتا اب جو لہر ہے پل بھر بعد نہیں
وہاں محفل نہ سجائی جہاں خلوت نہیں کی
وہاں محفل نہ سجائی جہاں خلوت نہیں کی اس کو سوچا ہی نہیں جس سے محبت نہیں کی اب کے بھی تیرے لیے جاں سے
کہانی لکھتے ہوئے داستاں سناتے ہوئے
کہانی لکھتے ہوئے داستاں سناتے ہوئے وہ سو گیا ہے مجھے خواب سے جگاتے ہوئے دیے کی لو سے چھلکتا ہے اس کے حسن کا
تم نے سچ بولنے کی جرأت کی
تم نے سچ بولنے کی جرأت کی یہ بھی توہین ہے عدالت کی منزلیں راستوں کی دھول ہوئیں پوچھتے کیا ہو تم مسافت کی اپنا
یہ لوگ جس سے اب انکار کرنا چاہتے ہیں
یہ لوگ جس سے اب انکار کرنا چاہتے ہیں وہ گفتگو در و دیوار کرنا چاہتے ہیں ہمیں خبر ہے کہ گزرے گا ایک سیل
Nazm
محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے
محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے جس میں تم لکھو کہ کل کس رنگ کے کپڑے پہننے کون سی خوشبو لگانی ہے کسے کیا بات کہنی
سندیسہ
اسے کہنا کبھی ملنے چلا آئے ہمارے پاؤں میں جو راستہ تھا راستے میں پیڑ تھے پیڑوں پہ جتنی طائروں کی ٹولیاں ہم سے ملا
سال کی آخری شب
سال کی آخری شب میرے کمرے میں کتابوں کا ہجوم پچھلی راتوں کو تراشے ہوئے کچھ ماہ و نجوم میں اکیلا مرے اطراف علوم ایک
پرانے ساحلوں پر نیا گیت
سمندر چاندنی میں رقص کرتا ہے پرندے بادلوں میں چھپ کے کیسے گنگناتے ہیں زمیں کے بھید جیسے چاند تاروں کو بتاتے ہیں ہوا سرگوشیوں
ماں
عظیم ماں تو نے اپنے بیٹوں کو بیوگی کی سیاہ چادر میں روشنی کا سبق پڑھایا عظیم ماں تو نے دکھ اٹھائے کہ تیرے بیٹے
ہم برے لوگ ہیں
تم ہی اچھے تھے کسی سے کبھی تکرار نہ کی تم کہ تکرار کے خوگر بھی نہ تھے تم ہی اچھے تھے جو منجملۂ ارباب
ہوا بند ہے
ہوا بند ہے سانس آتی نہیں اسقدر شور ہے کوئی آواز کانوں میں آتی نہیں کب سے تازہ گلابوں کی شاخوں پہ کلیوں کو کھلنے
میری بچی
میری ننھی بچی مجھ سے کہتی ہے ابو رات گئے تک آخر جاگتے کیوں ہو بیٹی میں راتوں کو اکثر شعر لکھا کرتا ہوں میری
اسم آب
جو تو تصویر کرتا ہے جو میں تحریر کرتا ہوں نہ تیرا ہے نہ میرا ہے مگر اپنا ہے یہ جب تک اسے پڑھنے میں
ایک بھولی ہوئی یاد
تم بھی مجھ سے سارے رشتے توڑ چکی تھیں میں نے بھی اک دوسرا رستہ دیکھ لیا تھا تم نے مجھ سے عہد لیا تھا
فرار
ٹوٹے پھوٹے وعدوں سے خوش فہمیوں کا کشکول سجائے مجھ میں رہنے کی خاطر تم آئے اس سے پہلے میں دروازہ کھولوں کچھ بولوں افواہوں
وقت مصنف ہے
تمہیں خبر ہے کہا تھا تم نے میں لفظ سوچوں میں لفظ بولوں میں لفظ لکھوں میں لفظ لکھنے پہ زندگی کے عزیز لمحوں کو
Sher
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے سلیم کوثر
قربتیں ہوتے ہوئے بھی فاصلوں میں قید ہیں
قربتیں ہوتے ہوئے بھی فاصلوں میں قید ہیں کتنی آزادی سے ہم اپنی حدوں میں قید ہیں سلیم کوثر
اور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرم خاموشی
اور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرم خاموشی ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں سلیم کوثر
کہانی لکھتے ہوئے داستاں سناتے ہوئے
کہانی لکھتے ہوئے داستاں سناتے ہوئے وہ سو گیا ہے مجھے خواب سے جگاتے ہوئے سلیم کوثر
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے سلیم کوثر
ہم نے تو خود سے انتقام لیا
ہم نے تو خود سے انتقام لیا تم نے کیا سوچ کر محبت کی سلیم کوثر
پکارتے ہیں انہیں ساحلوں کے سناٹے
پکارتے ہیں انہیں ساحلوں کے سناٹے جو لوگ ڈوب گئے کشتیاں بناتے ہوئے سلیم کوثر
کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے کبھی دل پر آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا سلیم کوثر
آئینہ خود بھی سنورتا تھا ہماری خاطر
آئینہ خود بھی سنورتا تھا ہماری خاطر ہم ترے واسطے تیار ہوا کرتے تھے سلیم کوثر
وقت رک رک کے جنہیں دیکھتا رہتا ہے سلیمؔ
وقت رک رک کے جنہیں دیکھتا رہتا ہے سلیمؔ یہ کبھی وقت کی رفتار ہوا کرتے تھے سلیم کوثر
دنیا اچھی بھی نہیں لگتی ہم ایسوں کو سلیمؔ
دنیا اچھی بھی نہیں لگتی ہم ایسوں کو سلیمؔ اور دنیا سے کنارا بھی نہیں ہو سکتا سلیم کوثر
مجھے سنبھالنے میں اتنی احتیاط نہ کر
مجھے سنبھالنے میں اتنی احتیاط نہ کر بکھر نہ جاؤں کہیں میں تری حفاظت میں سلیم کوثر