Sardar Panchhi
- 14 October 1932
- Gujranwala, British Punjab
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
ہم فقیری مزاج رکھتے ہیں
ہم فقیری مزاج رکھتے ہیں اپنی ٹھوکر میں تاج رکھتے ہیں ہاتھ میں کاسہ اور مرے حاکم سر پہ سونے کا تاج رکھتے ہیں سارے
اپنی ماں کی دعائیں پاتا ہوں
اپنی ماں کی دعائیں پاتا ہوں اس لئے ہی تو مسکراتا ہوں پیار کی بھوک جب ستاتی ہے دوستوں سے فریب کھاتا ہوں یہ بھی
تم ہو مجرم ہم ہیں ملزم چلو نیا انصاف کریں
تم ہو مجرم ہم ہیں ملزم چلو نیا انصاف کریں تم بھی ہمیں معافی دے دو ہم بھی تمہیں معاف کریں پھر اجلی کرسی پر
ہنسی ہنسی میں کوئی کھیل چل رہا ہوگا
ہنسی ہنسی میں کوئی کھیل چل رہا ہوگا سڑک پہ پھر کوئی انسان جل رہا ہوگا بہت اداس ہیں حاکم اگر تو شہر مرا کسی
کیا ہے اس دل کا حال مت پوچھو
کیا ہے اس دل کا حال مت پوچھو ہم سے نازک سوال مت پوچھو جان جائے گا کل زمانہ سب زندگی ہے محال مت پوچھو
وہ حراست میں جو انسان لئے جاتے ہیں
وہ حراست میں جو انسان لئے جاتے ہیں اپنی تفریح کا سامان لئے جاتے ہیں کل جسے گھر سے اٹھا لے گئی خاکی وردی آج
گنگنانے کی بات کرتے ہو
گنگنانے کی بات کرتے ہو کس زمانے کی بات کرتے ہو جانے جانے کی بات کرتے ہو کیوں جلانے کی بات کرتے ہو سنگ مرمر
مالی اداس ہے نہ یہ گلشن اداس ہے
مالی اداس ہے نہ یہ گلشن اداس ہے آندھی میں صرف ایک نشیمن اداس ہے جمنا کے تیر بجتی ہے نیروؔ کی بانسری رانجھےؔ کا
سوچتے کیا ہیں چھلکتا جام لے کر
سوچتے کیا ہیں چھلکتا جام لے کر پیجیے اس بے وفا کا نام لے کر آئے تھے تو ہاتھ خالی تھے ہمارے جا رہے ہیں
جو راہوں کے پتھر تھے کیا ہو گئے ہیں
جو راہوں کے پتھر تھے کیا ہو گئے ہیں شوالوں میں جا کر خدا ہو گئے ہیں یہ کیسی ہوا چل رہی ہے چمن میں
تمہارے جسم کو چھو کر مہک اٹھی صبا کوئی
تمہارے جسم کو چھو کر مہک اٹھی صبا کوئی چلا خوشبو سے خوشبو کا برابر سلسلہ کوئی بہت مایوس لوٹی ہے چمن سے پھر ہوا
آس جس کی جوان ہوتی ہے
آس جس کی جوان ہوتی ہے اس کی اونچی اڑان ہوتی ہے جو قلم عابد ادب ٹھہرا اس کی ہی آن بان ہوتی ہے تیر
Nazm
وہ کون مصور ہے
وہ کون مصور ٹھہرا جس نے ہے تجھے بنایا وہ قلم کہاں سے آیا یہ رنگ کہاں سے آیا پنکھڑیاں ادھر گلابی گالوں پہ اک
طالب علموں کے نام
خدا بھی اپنی رحمت سے تمہاری جھولی بھر دے گا تم اپنی اپنی روٹی کا نوالہ بانٹتے رہنا یہاں سے پڑھ کے جانے والو تم
سہرے کی لڑی
مہک پھولوں اور کلیوں کی لڑی سہرے میں ہے پیار کے گلشن کی ساری دل کشی سہرے میں ہے ماں کی ممتا باپ کی شفقت
ملاقات کروں گا
تصویر سے کس طرح ملاقات کروں گا یہ مجھ سے بولتی نہیں کیا بات کروں گا یہ پھول سے رخسار یہ ہونٹوں کی نزاکت یہ
ہاتھ کی لکیریں
ہر بھید کو چھپائیں یہ ہاتھ کی لکیریں پوچھو تو سب بتائیں یہ ہاتھ کی لکیریں سمجھو تو آئنہ ہے دیکھو تو کچھ نہیں ہے
ندی نے کہا
موت دیتے ہو کیوں زندگی کی طرح مجھ کو جینے دو بس اک ندی کی طرح جھلملاتے ہمالے سے اتری ہوں میں چاہے جیسی ہوں
زندگی اک رات کی
ہر پتنگے کو پتہ ہے زندگی اک رات کی شمع کا یہ حسن اور یہ روشنی اک رات کی زندگی اک رات کی ہے روشنی
گردکارواں
ہم نہ ہوں گے تم نہ ہو گے یاد اک تڑپائے گی راستے میں صرف گرد کارواں رہ جائے گی میرے آنسو کہہ رہے ہیں
عشق اور خدا
لوگ تو مندر مسجد جائیں ڈھونڈیں پتھر سل میں عاشق کو رب نظر آئے محبوب کے کالے تل میں کیوں یہ اس کو بن بن
بٹوارا
زمیں کہتی ہے میں نے پیار سب کو پیار سے بانٹا ہر اک بالی کا دانہ دانہ بھی ستکار سے بانٹا مرے نادان بیٹوں نے
Sher
بدل رہی ہے قفس میں ہوا اگر پنچھیؔ
بدل رہی ہے قفس میں ہوا اگر پنچھیؔ تو مقتلوں میں بھی موسم بدل رہا ہوگا سردار پنچھی
تخت نشینوں کے قدموں پر بوسے دینے والے اب
تخت نشینوں کے قدموں پر بوسے دینے والے اب ایک نظر میری قربانی پر بھی تو اوصاف کریں سردار پنچھی
میرے غم میرے بچوں جیسے ہیں
میرے غم میرے بچوں جیسے ہیں میں جنہیں گود میں کھلاتا ہوں سردار پنچھی
کرو گے مجھے دفن تو یوں لگے گا
کرو گے مجھے دفن تو یوں لگے گا کہ میں ماں کی گودی میں ہی سو گیا ہوں سردار پنچھی
اسی پر ناز کرتی ہے ہمیشہ ہاتھ کی ریکھا
اسی پر ناز کرتی ہے ہمیشہ ہاتھ کی ریکھا کہ جس کی مٹھی میں بھی ورثۂ اجداد ہوتا ہے سردار پنچھی
اب تو میں بھی ہوں پان کا پتا
اب تو میں بھی ہوں پان کا پتا ایسا چونا لگا گیا مجھ کو سردار پنچھی