Javed Akhtar
- 17 January 1945
- Gwalior, Gwalior State, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
جینا مشکل ہے کہ آسان ذرا دیکھ تو لو
جینا مشکل ہے کہ آسان ذرا دیکھ تو لو لوگ لگتے ہیں پریشان ذرا دیکھ تو لو پھر مقرر کوئی سرگرم سر منبر ہے کس
جدھر جاتے ہیں سب جانا ادھر اچھا نہیں لگتا
جدھر جاتے ہیں سب جانا ادھر اچھا نہیں لگتا مجھے پامال رستوں کا سفر اچھا نہیں لگتا غلط باتوں کو خاموشی سے سننا حامی بھر
مجھ کو یقیں ہے سچ کہتی تھیں جو بھی امی کہتی تھیں
مجھ کو یقیں ہے سچ کہتی تھیں جو بھی امی کہتی تھیں جب میرے بچپن کے دن تھے چاند میں پریاں رہتی تھیں ایک یہ
بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کوئی رونے کا
بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کوئی رونے کا ہمیں یہ شوق ہے کیا آستیں بھگونے کا اگر پلک پہ ہے موتی تو یہ نہیں کافی ہنر
یاد اسے بھی ایک ادھورا افسانہ تو ہوگا
یاد اسے بھی ایک ادھورا افسانہ تو ہوگا کل رستے میں اس نے ہم کو پہچانا تو ہوگا ڈر ہم کو بھی لگتا ہے رستے
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ مجھ کو تیری تلاش کیوں ہے
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ مجھ کو تیری تلاش کیوں ہے کہ جب ہیں سارے ہی تار ٹوٹے تو ساز میں ارتعاش کیوں
ابھی ضمیر میں تھوڑی سی جان باقی ہے
ابھی ضمیر میں تھوڑی سی جان باقی ہے ابھی ہمارا کوئی امتحان باقی ہے ہماری ان سے جو تھی گفتگو وہ ختم ہوئی مگر سکوت
ہمارے شوق کی یہ انتہا تھی
ہمارے شوق کی یہ انتہا تھی قدم رکھا کہ منزل راستا تھی بچھڑ کے ڈار سے بن بن پھرا وہ ہرن کو اپنی کستوری سزا
وہ زمانہ گزر گیا کب کا
وہ زمانہ گزر گیا کب کا تھا جو دیوانہ مر گیا کب کا ڈھونڈھتا تھا جو اک نئی دنیا لوٹ کے اپنے گھر گیا کب
ذرا موسم تو بدلا ہے مگر پیڑوں کی شاخوں پر نئے پتوں کے آنے میں ابھی کچھ دن لگیں گے
ذرا موسم تو بدلا ہے مگر پیڑوں کی شاخوں پر نئے پتوں کے آنے میں ابھی کچھ دن لگیں گے بہت سے زرد چہروں پر
یہ دنیا تم کو راس آئے تو کہنا
یہ دنیا تم کو راس آئے تو کہنا نہ سر پتھر سے ٹکرائے تو کہنا یہ گل کاغذ ہیں یہ زیور ہیں پیتل سمجھ میں
پھرتے ہیں کب سے در بدر اب اس نگر اب اس نگر اک دوسرے کے ہم سفر میں اور مری آوارگی
پھرتے ہیں کب سے در بدر اب اس نگر اب اس نگر اک دوسرے کے ہم سفر میں اور مری آوارگی نا آشنا ہر رہگزر
Nazm
یہ گھیل کیا ہے
یہ وقت کیا ہے یہ کیا ہے آخر کہ جو مسلسل گزر رہا ہے یہ جب نہ گزرا تھا تب کہاں تھا کہیں تو ہوگا
وقت
یہ وقت کیا ہے یہ کیا ہے آخر کہ جو مسلسل گزر رہا ہے یہ جب نہ گزرا تھا تب کہاں تھا کہیں تو ہوگا
بنجارہ
میں بنجارہ وقت کے کتنے شہروں سے گزرا ہوں لیکن وقت کے اس اک شہر سے جاتے جاتے مڑ کے دیکھ رہا ہوں سوچ رہا
وہ کمرہ یاد آتا ہے
میں جب بھی زندگی کی چلچلاتی دھوپ میں تپ کر میں جب بھی دوسروں کے اور اپنے جھوٹ سے تھک کر میں سب سے لڑ
دشواری
میں بھول جاؤں تمہیں اب یہی مناسب ہے مگر بھلانا بھی چاہوں تو کس طرح بھولوں کہ تم تو پھر بھی حقیقت ہو کوئی خواب
آنسو
کسی کا غم سن کے میری پلکوں پہ ایک آنسو جو آ گیا ہے یہ آنسو کیا ہے یہ آنسو کیا اک گواہ ہے میری
نیاحکم نامہ
کسی کا حکم ہے ساری ہوائیں ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں کہ ان کی سمت کیا ہے کدھر جا رہی ہیں ہواؤں کو بتانا یہ
میلے
باپ کی انگلی تھامے اک ننھا سا بچہ پہلے پہل میلے میں گیا تو اپنی بھولی بھالی کنچوں جیسی آنکھوں سے اک دنیا دیکھی یہ
پندرہ اگست
یہی جگہ تھی یہی دن تھا اور یہی لمحات سروں پہ چھائی تھی صدیوں سے اک جو کالی رات اسی جگہ اسی دن تو ملی
بھوک
آنکھ کھل گئی میری ہو گیا میں پھر زندہ پیٹ کے اندھیروں سے ذہن کے دھندلکوں تک ایک سانپ کے جیسا رینگتا خیال آیا آج
شبانہ
یہ آئے دن کے ہنگامے یہ جب دیکھو سفر کرنا یہاں جانا وہاں جانا اسے ملنا اسے ملنا ہمارے سارے لمحے ایسے لگتے ہیں کہ
عجیب آدمی تھا وہ
عجیب آدمی تھا وہ محبتوں کا گیت تھا بغاوتوں کا راگ تھا کبھی وہ صرف پھول تھا کبھی وہ صرف آگ تھا عجیب آدمی تھا
Sher
ایک یہ گھر جس گھر میں میرا ساز و ساماں رہتا ہے
ایک یہ گھر جس گھر میں میرا ساز و ساماں رہتا ہے ایک وہ گھر جس گھر میں میری بوڑھی نانی رہتی تھیں جاوید اختر
غلط باتوں کو خاموشی سے سننا حامی بھر لینا
غلط باتوں کو خاموشی سے سننا حامی بھر لینا بہت ہیں فائدے اس میں مگر اچھا نہیں لگتا جاوید اختر
کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے
کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی جاوید اختر
تب ہم دونوں وقت چرا کر لاتے تھے
تب ہم دونوں وقت چرا کر لاتے تھے اب ملتے ہیں جب بھی فرصت ہوتی ہے جاوید اختر
جدھر جاتے ہیں سب جانا ادھر اچھا نہیں لگتا
جدھر جاتے ہیں سب جانا ادھر اچھا نہیں لگتا مجھے پامال رستوں کا سفر اچھا نہیں لگتا جاوید اختر
مجھے دشمن سے بھی خودداری کی امید رہتی ہے
مجھے دشمن سے بھی خودداری کی امید رہتی ہے کسی کا بھی ہو سر قدموں میں سر اچھا نہیں لگتا جاوید اختر
اونچی عمارتوں سے مکاں میرا گھر گیا
اونچی عمارتوں سے مکاں میرا گھر گیا کچھ لوگ میرے حصے کا سورج بھی کھا گئے جاوید اختر
ڈر ہم کو بھی لگتا ہے رستے کے سناٹے سے
ڈر ہم کو بھی لگتا ہے رستے کے سناٹے سے لیکن ایک سفر پر اے دل اب جانا تو ہوگا جاوید اختر
تم یہ کہتے ہو کہ میں غیر ہوں پھر بھی شاید
تم یہ کہتے ہو کہ میں غیر ہوں پھر بھی شاید نکل آئے کوئی پہچان ذرا دیکھ تو لو جاوید اختر
دھواں جو کچھ گھروں سے اٹھ رہا ہے
دھواں جو کچھ گھروں سے اٹھ رہا ہے نہ پورے شہر پر چھائے تو کہنا جاوید اختر
اسی جگہ اسی دن تو ہوا تھا یہ اعلان
اسی جگہ اسی دن تو ہوا تھا یہ اعلان اندھیرے ہار گئے زندہ باد ہندوستان جاوید اختر
ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے
ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے صرف دل کی گلی میں کھیلے تھے جاوید اختر
Qita
پاس آ کے بھی فاصلے کیوں ہیں
پاس آ کے بھی فاصلے کیوں ہیں راز کیا ہے سمجھ میں یہ آیا اس کو بھی یاد ہے کوئی اب تک میں بھی تم
لاکھ ہوں ہم میں پیار کی باتیں
لاکھ ہوں ہم میں پیار کی باتیں یہ لڑائی ہمیشہ چلتی ہے اس کے اک دوست سے میں جلتا ہوں میری اک دوست سے وہ
ہم بھی کافی تیز تھے پہلے
ہم بھی کافی تیز تھے پہلے وہ بھی تھی عیار بہت پہلے دونوں کھیل رہے تھے لیکن اب ہے پیار بہت جاوید اختر
کتھئی آنکھوں والی اک لڑکی
کتھئی آنکھوں والی اک لڑکی ایک ہی بات پر بگڑتی ہے تم مجھے کیوں نہیں ملے پہلے روز یہ کہہ کے مجھ سے لڑتی ہے