Abid Umar
- 1977
- Kasur, Pakistan
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
یہ کیا پڑی ہے تجھے دل جلوں میں بیٹھنے کی
یہ کیا پڑی ہے تجھے دل جلوں میں بیٹھنے کی یہ عمر تو ہے میاں دوستوں میں بیٹھنے کی چھپائی جاتی نہیں زردیاں سو دور
یوں تری راہ میں پڑے ہوئے ہیں
یوں تری راہ میں پڑے ہوئے ہیں جیسے درگاہ میں پڑے ہوئے ہیں غم ہیں جتنے بھی اس زمانے کے میری اک آہ میں پڑے
بعد مرنے کے کوئی بوسۂ رخصت دے گا
بعد مرنے کے کوئی بوسۂ رخصت دے گا کیا خدا مجھ کو بھی ایسی بھلی قسمت دے گا زندگی ہے یہ میاں رنج و الم
جو صاف گو ہوں تو اونچی جگہ کھڑا ملوں گا
جو صاف گو ہوں تو اونچی جگہ کھڑا ملوں گا وگرنہ تجھ کو کہیں خاک میں پڑا ملوں گا تو سالوں بعد بھی مجھ کو
برا ہی کیا تھا جو آپ اپنی مثال ہوتے کمال ہوتے
برا ہی کیا تھا جو آپ اپنی مثال ہوتے کمال ہوتے کسی طرح سے جو ٹوٹے رشتے بحال ہوتے کمال ہوتے یہ لیلیٰ مجنوں یہ
ورق وہی تھا مگر دوسری پرت چاہی
ورق وہی تھا مگر دوسری پرت چاہی کہ میں نے اس کی محبت سے منفعت چاہی مزا عجب تھا محبت بھری لڑائی میں کہ چھیڑ
ہو گیا جیسے ترا دیدار پہلا آخری
ہو گیا جیسے ترا دیدار پہلا آخری ہو بھی سکتا ہے کسی کا پیار پہلا آخری عمر بھر وہ شخص اپنی بات پر قائم رہا
وفا کی خو پس جاہ و جلال رہ گئی تھی
وفا کی خو پس جاہ و جلال رہ گئی تھی انا کے خول میں وہ بے مثال رہ گئی تھی کھٹک رہی ہے نہ جانے
جو بھی ہے حسب حال کھینچیں گے
جو بھی ہے حسب حال کھینچیں گے اس کا نقشہ کمال کھینچیں گے چٹکی کاٹے گی وہ شرارت سے اور ہم اس کے بال کھینچیں
مجھ ایسے شخص کی حاجت روائی کرتے ہوئے
مجھ ایسے شخص کی حاجت روائی کرتے ہوئے بھٹک گیا تھا وہ کار خدائی کرتے ہوئے کہ باتوں باتوں میں منزل سے دور لے گیا
Sher
دیا پلٹ کے سہارا سسکتی بیٹی نے
دیا پلٹ کے سہارا سسکتی بیٹی نے کہ باپ گرنے لگا تھا وداعی کرتے ہوئے عابد عمر
نصاب عشق ابھی تک ہے ماورائے خرد
نصاب عشق ابھی تک ہے ماورائے خرد کہ تیس سال ہوئے ہیں پڑھائی کرتے ہوئے عابد عمر
عمر بھر وہ شخص اپنی بات پر قائم رہا
عمر بھر وہ شخص اپنی بات پر قائم رہا اور یوں ثابت ہوا انکار پہلا آخری عابد عمر
دینے ہوں گے جواب آخر کار
دینے ہوں گے جواب آخر کار تجھ کو میرے سوال کھینچیں گے عابد عمر
کچھ غرض ہی نہیں جسے ہم سے
کچھ غرض ہی نہیں جسے ہم سے اس کی پرواہ میں پڑے ہوئے ہیں عابد عمر
میں تو سمجھا تھا محبت کا بلاوا ہے عمرؔ
میں تو سمجھا تھا محبت کا بلاوا ہے عمرؔ کیا خبر تھی وہ مجھے موت کی دعوت دے گا عابد عمر
شمار میرا بھی کرتے ہیں لوگ ان میں مگر
شمار میرا بھی کرتے ہیں لوگ ان میں مگر مری مجال کہاں شاعروں میں بیٹھنے کی عابد عمر
یہ کیا پڑی ہے تجھے دل جلوں میں بیٹھنے کی
یہ کیا پڑی ہے تجھے دل جلوں میں بیٹھنے کی یہ عمر تو ہے میاں دوستوں میں بیٹھنے کی عابد عمر
ہوں با وفا تو مرا سر نہیں جھکے گا کبھی
ہوں با وفا تو مرا سر نہیں جھکے گا کبھی جو بے وفا ہوں تو پھر شرم سے گڑا ملوں گا عابد عمر